Maktaba Wahhabi

593 - 692
کی مقرر کردہ(عدت کی)میعاد پوری ہونے سے پہلے عقد نکاح پختہ نہ کرو۔‘‘[1] 5: جس عورت کو تین طلاقیں ہو جائیں،وہ اپنے اس خاوند سے نکاح نہیں کر سکتی،اب اگر وہ عورت(ہمیشہ کی نیت سے)دوسرے آدمی سے نکاح کرے،پھر اتفاقاً طلاق یا خاوند کی موت کی وجہ سے اس سے جدائی ہو جائے اور عدت بھی گزر جائے تو پھر اس کا پہلے خاوند سے نکاح ہو سکتا ہے۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾’’جب تک وہ دوسرے خاوند سے نکاح نہ کرے،پہلے کے لیے حلال نہیں ہے۔‘‘[2] 6: زانیہ عورت سے مومن مرد نکاح نہ کرے،جب تک کہ وہ زنا سے تائب نہ ہو جائے،اگر اس کے توبہ کا یقینی علم ہو جائے اور عدت گزر جائے تو نکاح جائز ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ﴾’’زانیہ کے ساتھ زانی یا مشرک ہی نکاح کرتا ہے اور ایمان والوں پر یہ حرام ہے۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’اَلزَّانِي الْمَجْلُودُ لَا یَنْکِحُ إِلَّا مِثْلَہُ‘’’درے کا سزا یافتہ زانی اپنے جیسی(بدکارہ)کے ساتھ ہی نکاح کرتا ہے۔‘‘[4] طلاق کا بیان: ٭ طلاق کی تعریف: صریح لفظ میں ازدواجی تعلق توڑ دینا،مثلاً:یہ کہے کہ تجھے طلاق ہے یا تجھے چھوڑا یا پھر کنائے کے طور پر کوئی لفظ کہے اور نیت طلاق کی ہو،مثلاً:طلاق کے ارادے سے یہ کہنا کہ اپنے میکے چلی جا۔ ٭ طلاق کا حکم: دونوں میاں بیوی میں سے ہر ایک کو متوقع یا حقیقی نقصان سے بچانے کے لیے طلاق مباح ہے،اس لیے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ﴾’’طلاق دو بار ہے،پھر(خاوند اسے)اچھے طریقے سے اپنے پاس رکھے یا چھوڑ دے۔‘‘[5] نیز ارشاد ربانی ہے:﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ﴾ ’’اے نبی!(لوگوں سے کہہ دو کہ)جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کی عدت(کے شروع)میں طلاق دو۔‘‘[6] اگر نقصان کا ازالہ طلاق کے بغیر نہیں ہو رہا تو طلاق لازم ہے لیکن اگر طلاق میں کسی ایک فریق کا نقصان زیادہ ہے
Flag Counter