Maktaba Wahhabi

494 - 692
سے بھی اجتناب کیا جائے۔٭ تنبیہ:نیک ارادے سے اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ جو کوئی اللہ کی کتاب کے اتنے پارے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں سے اتنی احادیث حفظ کر لے یا اتنے مسائل میراث یا حساب کے حل کر لے تو اسے اتنے روپے یا فلاں سامان انعام میں دیا جائے گا جس سے اس کا مقصد اللہ کی کتاب اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حفظ کی ترغیب اور مسائل علم سے آگہی و دریافت تھی تو شرعًا یہ جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔مقابلے میں حصہ لینے والا جو شخص فائز و کامیاب قرار دیا گیا،اس کے لیے انعام لینا اور نہ لینا دونوں طرح جائز ہے،البتہ مقرر کرنے والا حسب وعدہ انعام اس کے سپرد کر دے۔ باب:3 بیع و تجارت کا بیان بیع کا حکم،حکمت اور اجزاء: ٭ بیع و تجارت کا حکم: کتاب عزیز سے بیع(خرید و فروخت)کا مشروع ہونا ثابت ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ ’’اللہ نے ’’بیع‘‘کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘[1] اسی طرح سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی قولاً و عملًا ’’بیع‘‘ کی مشروعیت ثابت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید و فروخت کی ہے۔اور فرمایا:’لَا یَبِعْ حَاضِرٌ لِّبَادٍ‘ ’’شہری دیہاتی کے لیے بیع نہ کرے۔‘‘[2] نیز فرمایا:’اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَالَمْ یَتَفَرَّقَا‘ ’’خریدوفروخت کرنے والے دونوں کو جب تک جدا نہ ہوں(سودا منسوخ کرنے کا)اختیار ہے۔‘‘[3] ٭ بیع و تجارت کی حکمت: بیع کی مشروعیت میں یہ حکمت مدنظر ہے کہ انسانوں کی ضروریاتِ زندگی کسی کو نقصان پہنچائے بغیر پوری ہوتی رہیں۔ ٭ نرد اور شطرنج کی ممانعت تو احادیث سے ثابت ہے۔(صحیح مسلم،الشعر،با ب تحریم اللعب بالنرد شیر،حدیث:2260،وسنن أبي داود،الأدب،باب في النھي عن اللعب بالنرد،حدیث:4939,4938)تاہم دوسرے کھیل جن کا تذکرہ فاضل مصنف نے مذکورہ سطور میں کیا ہے،ان میں اگر جوا بازی کا عنصر شامل ہو گا یا نماز یا دیگر فرائض سے ادائیگی میں مانع ہوں گے تو یقینا یہ بھی ناجائز قرار پائیں گے،بصورت دیگر بطور لغویات کے ان سے اعراض مستحب ہو گا لیکن بالکل حرام وناجائز کہنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہوگی۔(حافظ صلاح الدین یوسف)
Flag Counter