Maktaba Wahhabi

683 - 692
ساتھ اسلامی معاشرے میں بے حیائی کے پھیلاؤ کی روک تھام اور مسلمانوں میں رذیل کاموں کی شہرت کو ختم کرنا بھی مطلوب ہے کیونکہ مسلمان معاشرہ پاک اور بے داغ ہوتا ہے۔ ٭ ’’حد قذف‘‘ کی اقامت کی شرائط: کسی پر حد قذف نافذ کرنے کے لیے درج ذیل شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے: 1: الزام لگانے والا مسلمان عاقل اور بالغ ہو۔ 2: جس پر الزام لگا ہے،وہ عفیف و پاک دامن ہو۔لوگوں میں اس کی شہرت گندی نہ ہو۔ 3: جس پر الزام لگا ہے وہ حد کا مطالبہ کرے،اس لیے کہ یہ اسی کا حق ہے،چاہے اس حق کو استعمال کرے یا معاف کر دے۔ 4: الزام لگانے والا چار گواہ الزام کی سچائی پر پیش نہ کر سکے۔ ان چار شرطوں میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو حد نافذ نہیں ہو گی۔ زنا کا بیان: ٭ زنا کی تعریف: عورت کی قبل یا دبر میں حرام وطی کرنا زنا کہلاتا ہے۔ ٭ زنا کا حکم: کفر و شرک اور ’’قتل نفس‘‘کے بعد زنا کبیرہ گناہ ہے اور علیٰ الاطلاق بہت بڑی بے حیائی ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔ارشاد جل شانہ ہے: ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ ۖ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا﴾’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ،یہ بے حیائی ہے اور برا راستہ ہے۔‘‘[1] زانی کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حد مقرر کی ہے،ارشاد ہے:﴿الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ﴾’’زانی مرد اور عورت ہر ایک کو سو درے مارو۔‘‘[2] اور ایک آیت مبارکہ،جس کا حکم باقی اور تلاوت منسوخ ہے،میں فرمایا:٭((الَشَّیْخُ وَالشَّیْخَۃُ إِذَا زَنَیَا فَارْجُمُوھُمَا الْبَتَّۃَ،نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ)) ’’شادی شدہ مرد اور عورت زنا کریں تو دونوں کولازماً رجم(سنگسار)کر دو،یہ اللہ کی طرف سے(ان کی)سزا ہے۔‘‘[3] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((لَا یَزْنِي الزَّانِي حِینَ یَزْنِي وَھُوَ مُؤْمِنٌ)) ’’زانی ایمان کی حالت میں زنا نہیں کرتا(جب وہ زنا کرتا ہے تو ایمان سے خالی ہو جاتا ہے۔)‘‘[4] ٭ یعنی اس آیت کریمہ میں جس چیز کا حکم دیا گیا ہے وہ آج بھی ایک شرعی حکم کی حیثیت رکھتا ہے اگرچہ اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اسے قرآن مجید میں نہیں لکھا گیا۔واللہ اعلم۔(ع،ر)
Flag Counter