Maktaba Wahhabi

629 - 692
17: باپ:باپ زندہ ہو تو دادا،دادی،چچا اور بھائی مطلقًا محروم ہو جائیں گے۔ 18: دادا:دادا زندہ ہو تو دادا کا باپ،میت کے مادری بھائی اور چچا مطلقًا محروم ہوتے ہیں،اور اسی طرح بھتیجے بھی وارث نہیں ہوں گے۔ 19: ماں:ماں کی موجودگی میں دادی اور نانی محروم ہیں۔ دادا کے احوال: دادا،بیٹے کی اولاد،چچا اور اس کے بیٹے اور بھتیجوں کی وراثت کی تصریح اگرچہ کتاب اللہ میں وارد نہیں،تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان میں ان کا وارث ہونا ثابت فرما دیا ہے،چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَھْلِھَا،فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلٰی رَجُلٍ ذَکَرٍ)) ’’مقررہ حصہ ان کے وارثوں کو دے دو اور جو بچ جائے وہ(بلحاظ رشتہ میت کے)قریب ترین مرد کا ہے۔‘‘[1] علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان﴿يُوصِيكُمُ اللّٰهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾’’اللہ تمھیں تمھاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے۔‘‘[2]میں لفظ ’’اولاد‘‘ پوتے،پوتیوں کو بھی شامل ہے۔ بنابریں مندرجہ بالا افراد کی وراثت پر فقہائے امت کا اجماع ہے۔لیکن جب آیت﴿وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ﴾اور فرمان الٰہی﴿وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ﴾میں لفظ ’’اب‘‘ دادا کو بھی شامل ہے،لہٰذا وہ سدس(چھٹا حصہ)لینے میں باپ کی طرح ہے جب میت کا بیٹا یا پوتا موجود ہو یا بیٹے،پوتے کے ساتھ ساتھ بیٹی،پوتی بھی ہو۔اور اگر اکیلا دادا ہو تو وہ کل مال سمیٹ لے گا اور اگر اصحاب الفروض بھی موجود ہوں تو باقی کا بطریق عصبہ مستحق ہو گا،البتہ بھائیوں کے مسئلے میں وہ باپ کے حکم سے مختلف ہے،اس لیے کہ باپ کی موجودگی میں بھائی ساقط ہو جاتے ہیں،جبکہ دادا ان کو محروم نہیں کرتا بلکہ ان کے ساتھ وارث ہوتا ہے کیونکہ دادا اور بھائی میت کے ساتھ درجہء قرابت داری میں برابر ہیں،اس لیے کہ دونوں فریق باپ کے واسطے سے میت سے تعلق رکھتے اور اس کے وارث بنتے ہیں۔ ٭ دادا کے پانچ احوال ہیں: 1: دادا کے ساتھ اگر کوئی اور وارث نہ ہو تو وہ بطور عصبہ کل مال سمیٹ لے گا۔ 2: اس کے ساتھ صرف اصحاب الفروض ہوں تو اس کو بطور فرض چھٹا حصہ الگ ملے گا اور اگر کچھ باقی بچ گیا تو وہ بھی بطور عصبہ اسے دے دیا جائے گا۔ 3: اگر اس کے ساتھ میت کا بیٹا یا پوتا ہو تو اس کو صرف چھٹا حصہ ملے گا بچا ہوا مال بیٹا یا پوتا لے گا کیونکہ وہ عصبہ کی ترتیب میں دادا کی نسبت میت سے زیادہ قریب ہیں۔
Flag Counter