Maktaba Wahhabi

567 - 692
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے بارے میں عدل و انصاف کرو۔‘‘[1] 2: ’’ہبہ‘‘ کر کے واپس لینا حرام ہے،اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’اَلْعَائِدُ فِي ھِبَتِہِ کَالْعَائِدِ فِي قَیْئِہِ‘ ’’ہبہ‘‘ واپس لینے والا،اس شخص کی طرح ہے جو اپنی قے کھا لیتا ہے۔‘‘[2] اِلَّا یہ کہ ’’ہبہ‘‘ کرنے والا والد ہو تو وہ اپنی اولاد کو ’’ہبہ‘‘ کر کے واپس لے سکتا ہے،اس لیے کہ اولاد اور ان کا مال ’’والد‘‘ ہی کا تو ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اقدس ہے:((لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ یُّعْطِيَ عَطِیَّۃً فَیَرْجِعَ فِیھَا إِلَّا الْوَالِدَ فِیمَا یُعْطِي وَلَدَہُ)) ’’کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ عطیہ کر کے واپس لے مگر والد جو اپنی اولاد کو دیتا ہے۔‘‘[3] 3: ’’عوض‘‘ ملنے کی نیت سے’ ’ہبہ‘‘ کرنا درست نہیں ہے،یعنی ایک مسلمان اس لیے ’’ہبہ‘‘ کرے تا کہ دوسرا اس سے بڑھ کر کوئی چیز بدل دے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللّٰهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللّٰهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ﴾ ’’اور جو تم سود دیتے ہو تاکہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو اللہ کے ہاں اس میں افزائش نہیں ہوتی اور جو تم زکاۃ دیتے ہو تم اس سے اللہ کی رضا طلب کرتے ہو تو ایسے ہی لوگ(دنیا و آخرت میں اپنے مال کو)بڑھانے والے ہیں۔‘‘[4] اور جس کو اس شرط پر’ ’ہدیہ‘‘ دیا جا رہا ہوکہ وہ اسے اس کا عوض دے گا تو اسے اختیار ہے،چاہے قبول کرے یا رد کر دے اور اگر اس نے قبول کر لیا تو اس کے مساوی یا زیادہ اس کے ’’عوض‘‘ میں ’ ’ہبہ‘‘ کرنا لازم ہے،اس لیے کہ اب یہ بیع والی صورت بن گئی ہے،علاوہ ازیں ہدیے کے مقابلے میں ہدیہ دینے کی ترغیب بھی آئی ہے،سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:’کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقْبَلُ الْھَدِیَّۃَ وَیُثِیبُ عَلَیھَا‘ ’’نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ’’ہدیہ‘‘ قبول کرتے تھے اور اس کا بدلہ بھی دیتے تھے۔[5]
Flag Counter