Maktaba Wahhabi

240 - 692
’’اے اللہ!کتاب نازل کرنے والے،بادلوں کو حرکت دینے والے اور دشمن افواج کو شکست دینے والے،انھیں شکست سے دوچار کر اور ہمیں ان پر فتح عطا فرما۔‘‘[1] گویا آپ کی عادت مبارکہ اور سیرت طیبہ یہ تھی کہ مادی اور روحانی دونوں قسم کے اسباب سے کام لیا جائے اور پھر فتح وکامرانی کو حقیقی مالک،رب تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائے۔ ایک اور مثال ملاحظہ فرمایئے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت سے پہلے اکثر ساتھیوں کو مکہ سے روانہ کر دیا تھا،ان کے بعد اللہ کی طرف سے آپ کو ہجرت کرنے کی اجازت مرحمت ہوئی۔بوقت ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر درج ذیل ترجیحات تھیں: 1: اپنے ساتھیوں میں سے بہترین ساتھی(ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ)اس ہجرت کے سفر میں آپ کے ساتھ رہے۔ 2: کھانے پینے کی چیزیں تیار کرائیں اور اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا نے اپنے نطاق(کمر بند)کے دو ٹکڑے کر کے ایک سے انھیں باندھا جس کی وجہ سے ان کا لقب’’ذات النطاقین‘‘پڑا۔ 3: اس طویل اور پر مشقت سفر کے لیے بہترین اور عمدہ سواری کا انتظام کیا۔ 4: ایک ماہر،جغرافیہ دان جو راستے کی نزاکتوں اور باریکیوں کو خوب جانتا تھا،کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ اس سفر میں راستے کی صحیح رہنمائی کر سکے۔[2] 5: ہجرت کی رات آپ کا مکان دشمن کے محاصرے میں تھا،آپ نے کمال دانشمندی سے اپنے بستر پر اپنے عزیز بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو سلا دیا تاکہ دشمنوں کو باور کرایا جائے اور چال چلی جائے کہ آپ گھر میں ہی ہیں۔جو دروازوں کے شگافوں سے صورت حال پر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے نظر رکھ رہے تھے۔[3] 6: دشمن کو حقیقت حال کا پتہ چلا تو آپ کا پیچھا کرتے ہوئے دوڑ پڑا لیکن آپ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی معیت میں غار ثور میں پناہ گزین ہو گئے تاکہ کینہ ور،حاسد اور بے رحم دشمن کی نظروں سے چھپ جائیں۔[4] 7: ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب فرمایا:’’اگر دشمن اپنے قدموں کی طرف نظر کر لے تو وہ ہمیں تاڑ لے گا ‘‘تو اس پر توکل کے اعلیٰ منصب پر فائز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَا ظَنُّکَ یَا أَبَا بَکْرٍ!بِاثْنَیْنِ،اَللّٰہُ ثَالِثُھُمَا))
Flag Counter