Maktaba Wahhabi

239 - 692
جتنے بھی جائز اسباب ہیں سب کو استعمال کرنے کے باوجود اس کام کی تکمیل اور اس کا صدور محض اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔مومن اسباب کے بغیر کسی ثمر کے حاصل ہونے کی طمع نہیں کرتا،اسی طرح جن چیزوں کا پہلے صادر ہونا ضروری ہے،ان کے بغیر کسی نتیجہ کی برآمدگی کا وہ قائل نہیں ہوتا۔ہاں،وہ ان اسباب ومقدمات کے ثمرات و مقاصد کے حصول کو اللہ کے سپرد کر دیتا ہے،اس لیے کہ وہی ہر کام کو نتیجہ خیز بنانے پر قادر ہے،اس کے سوا کسی کو اس کی قدرت نہیں ہے۔ گویا توکل مسلمان کے نزدیک رضا ورغبت سے اطمینان کے ساتھ کام کرنے اور پھر اس کے مثبت نتیجے کی امید رکھنے کا نام ہے جبکہ عقیدہ بھی یہ ہو کہ جو اللہ چاہے گا،وہی ہو گا اور جو نہیں چاہے گا،وہ نہیں ہو گا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کسی اچھے کام کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا۔مسلمان کو تو کائنات میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی سنت کا یقین ہے،اسی لیے وہ اعمال کے لیے اسباب مطلوبہ کو ضروری سمجھتا ہے اور انھیں مہیا کرنے اور مکمل کرنے میں پوری طاقت صرف کرتا ہے لیکن یہ ہر گز نہیں سمجھتا کہ اغراض ومقاصد کے حصول میں صرف اسباب ہی کافی ہیں۔انھیں وہ اس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا کہ ان اسباب کو اختیار کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے،لہٰذا دیگر اوامر ونواہی کی طرح اس کی تعمیل بھی ضروری ہے۔باقی رہا مطلوبہ نتائج اور پسندیدہ اغراض کا حاصل ہونا تو یہ اللہ کے سپرد ہے۔وہی اس پر قادر ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں اور اس پوری کائنات میں وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے اور جو نہیں چاہتا،نہیں ہوتا۔ایسے کتنے ہی کارکن اور محنت کش ہیں جو اپنی محنت کا پھل نہ پاسکے اور کتنے ہی کاشت کار ہیں جو کاشت ومحنت کے باوجود غلہ حاصل نہ کر سکے۔بس اسباب پر مسلمان کی نظر صرف اتنی ہی ہے،اس لیے کہ ان پر کلی اعتماد اور ہر معاملہ میں انھی کا اعتبار کرنا کفر وشرک ہے جس سے احتراز ضروری ہے،البتہ کسی بھی کام کے مطلوبہ اسباب کو درخور اعتنا نہ سمجھنا اور باوجود قدرت کے انھیں حاصل کرنے کی سعی نہ کرنا اور امید رکھنا کہ یہ کام ہو جائے گا،یہ اللہ کی نافرمانی ہے جس سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔ اسباب کے بارے میں مسلمان کا یہ نظریہ اسلامی روح اور نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ساتھ کئی طویل لڑائیاں لڑی ہیں۔آپ جنگ سے پہلے پوری تیاری کرتے تھے،سامانِ جنگ مہیا ہوتا،معرکے کے لیے میدان کا چناؤ ہوتا اور وقت کا انتخاب کیا جاتا۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت یہ بھی مروی ہے کہ آپ گرمی کے وقت حملہ نہیں کرتے تھے۔فضا ٹھنڈی اور خوشگوار ہو جاتی،جنگ کی پوری پالیسی طے کر لی جاتی اور صفوں کو منظم کر دیا جاتا تو اجازت مرحمت فرماتے اور پھر معرکہ کی کامیابی کے لیے مطلوبہ مادی اسباب مہیا کر لینے کے بعد ہاتھ اٹھا کر اللہ کی جناب میں عرض فرماتے: ’اَللّٰھُمَّ!مُنْزِلَ الْکِتَابِ وَمُجْرِيَ السَّحَابِ وَھَازِمَ الْأَحْزَابِ اھْزِمْھُمْ وَانْصُرْنَا عَلَیْھِمْ‘
Flag Counter