پھینک دوں گا۔[1]
ظاہر ہے ارض کربلا کو یہ مقام و مرتبہ اسی لیے حاصل ہوا کہ وہ ان کے اعتقاد کی رُو سے حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن ہے، واقعہ کربلا سے لے کر آج تک شعراء کی زبانوں اور لکھنے والوں کی قلموں سے کعبہ مشرفہ اور کربلا کے درمیان اس مقارنہ کا اظہار ہوتا چلا آیا ہے اور وہ نظم و نثر کے مختلف اسالیب سے اس کی تقدیس و فضیلت اور عز و شرف کا اثبات کرتے رہے اور ہر خطہ ارضی کے مقابلے میں اس کی فضیلت و شرافت کے بیان کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے ہیں اور اس سرزمین کو یہ عظیم شرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے حاصل ہوا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے کہ اللہ نے اسے یہ عز و شرف حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے دیا۔[2]
ائمہ کرام کے بارے میں ان کے اعتقاد اور اس میں غلو کی وجہ سے اور لوگوں کو ان کی قبروں اور زیارت گاہوں کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے انہوں نے ان کی زیارت کرنے والوں کے لیے بڑی بڑی فضیلتوں اور بہت زیادہ اجر و ثواب کی داستانیں بنا رکھی ہیں ۔ مثلاً انہوں نے ابو عبداللہ جعفر الصادق کی طرف ان کا یہ قول منسوب کر دیا کہ اگر لوگوں کو علم ہو جائے کہ زیارت حسینؓ کس قدر فضیلت کی حامل ہے تو وہ اس کے شوق میں جانیں کھپا دیں ، میں نے کہا: اس کی کیا فضیلت ہے؟ انہوں نے فرمایا: شوق کے ساتھ زیارت حسین کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ ایک ہزار حج مقبول اور ایک ہزار عمرۂ مبرور لکھ دیتا ہے، شہدائے بدر کے ثواب کے برابر ایک ہزار شہید، ایک ہزار روزے دار، ایک ہزار صدقہ مقبولہ اور ایک ہزار نسخہ کا اجر و ثواب لکھ دیتا ہے، وہ اس سال ہر آفت سے محفوظ رہتا ہے جن سے سب سے ہلکی آفت شیطان ہے، اللہ تعالیٰ اس پر ایک باعزت فرشتے کو مقرر کر دیتا ہے جو اس کی اس کے آگے پیچھے، دائیں بائیں اور اوپر نیچے سے حفاظت کرتا ہے اور اگر وہ اسی سال مر جائے تو رب رحمن کے فرشتے اس کے غسل اور کفن دفن میں شریک ہوتے، اس کے لیے استغفار کرتے اور اسے قبر تک پہنچاتے ہیں ، حد نگاہ تک اس کی قبر کھلی کر دی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اسے عذاب قبر اور منکر و نکیر سے پرامن رکھتا ہے۔ اس کے لیے جنت کی طرف دروازہ کھول دیا جاتا ہے، اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جاتا ہے، اسے روزِقیامت ایسا نور عطا کیا جائے گا جس کی وجہ سے مشرق اور مغرب کے درمیان کا سارا علاقہ منور ہو جائے گا اور پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا کہ یہ ازراہِ شوق زائرین حسین رضی اللہ عنہ میں سے ہے، اس روز ہر شخص یہ تمنا کرے گا کہ کاش وہ بھی زائرین حسین میں شامل ہوتا۔[3]
|