Maktaba Wahhabi

441 - 441
میں ابولہب بھی شامل تھا اور ابو لہب کا رویہ بہت سخت تھا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح تکالیف دے۔ چنانچہ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ جو رشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کیے تھے، ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی، ان کو توڑ دیا جائے۔ لہٰذا اس نے ایسا ہی کیا۔ بہانہ یہ بنایا کہ میرا بھتیجا میری ہجو کرتا ہے۔ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو بلایا اور کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کو طلاق دو ورنہ تمہارا سر آمنے سامنے نہیں ہو سکے گا یعنی میں کبھی تمہاری شکل نہیں دیکھوں گا۔ باپ کی بات مانتے ہوئے ان کے دونوں بیٹوں نے طلاق دے دی۔ یہ تھے ہی بدبخت اللہ تعالیٰ نے ان سے ان سیدات کی حفاظت فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے بدرجہا اعلیٰ اور افضل داماد عطا فرما دیا۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کوششوں سے مسلمان ہو چکے تھے۔ یہ اموی خاندان سے تھے اور نہایت شریف النفس اور خوبصورت انسان۔ نوجوان اور کنوارے تھے۔ نہایت مال دار تاجر تھے۔ گویا شادی کے لیے کسی بھی نوجوان میں جو اعلیٰ صفات مطلوب ہوتی ہیں وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ میں موجود تھیں ۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ رقیہ کا رشتہ مانگ لیا۔ اس رشتے کو قبول کر لیا گیا اور ان کا نکاح رقیہ رضی اللہ عنہا سے وحی الٰہی سے ہوا تھا۔ یہ جوڑی ایک مثالی جوڑی بن گئی تھی۔ سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے آنگن میں ایک پھول کھلا جس کا نام عبداللہ رکھا گیا۔ اس لحاظ سے وہ ام عبداللہ ہو گئیں ۔ عبداللہ کے بعد ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی۔ غزوہ بدر سے پہلے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کو چیچک نکل آئی۔ علاج پر بھرپور توجہ دی گئی مگر مرض بڑھتا چلا گیا۔ ادھر بدر کے میدان میں جانے کا اعلان ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لڑائی میں شرکت کے لیے تیاری کرنے لگے جن میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ ادھر سیدہ رقیہ کی حالت روز بروز بگڑتی جا رہی تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا تم ان کی تیمار داری کے لیے مدینہ میں ہی رہو ایک طرف وفا شعار بیوی کی بیماری اور ان کی ضرورت تھی تو دوسری طرف جذبہ جہاد سے سرشاری۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کی اللہ کے رسول! میرے اجر و ثواب کا کیا ہو گا؟ ارشاد فرمایا: عثمان! فکر نہ کرو تمہیں غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے مجاہدین کے برابر اجر بھی ملے گا اور غنیمت سے حصہ بھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر مدینہ منورہ میں ٹھہر گئے۔ ادھر مسلمانوں کو اللہ رب العزت نے بدر کے میدان میں فتح مبین سے سرفراز فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو فتح کی خوش خبری دینے کے لیے مدینہ منورہ روانہ فرمایا۔ ان کے مدینہ منورہ پہنچنے سے قبل ہی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اکیس سال کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہو چکی تھیں ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
Flag Counter