Maktaba Wahhabi

437 - 441
محاصرہ کر لیا تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں صاحب زادوں سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہما کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کی حفاظت کے لیے متعین فرمایا۔ وہ ان کی حفاظت کے دوران زخمی بھی ہوئے۔ باغی اس دروازے سے داخل نہ ہو سکے جہاں ان کا پہرا تھا۔ تاہم باغی ایک دوسری دیوار پھاند کر اندر پہنچ گئے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اثنائے تلاوت قرآن کریم شہید کر دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور اہل بیت میں آپس میں بے حد محبت و مودت تھی۔ مزید جاننے کے لیے دیکھیے: ہماری سیریز ’’خلفائے راشدین‘‘۔ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے شب و روز عبادت میں گزرتے وہ لوگوں کی حاجات پوری کرنے میں سبقت لے جاتے تھے۔ ایک مرتبہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ کے ایک شخص سے پوچھا مجھے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے معمولات کے بارے میں بتاؤ ۔ اس نے کہا: امیر المومنین وہ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد سورج طلوع ہونے تک مسجد ہی میں ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں ۔ اشراق کی نماز کے بعد مختلف قبائل کے سردار ان کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں ۔ پھر اٹھ کر امہات المومنین علیہ السلام کے پاس تشریف لے جاتے ہیں اور انہیں سلام کہتے ہیں بسا اوقات انہیں تحائف بھی پیش کرتے ہیں ۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر تشریف لے جاتے ہیں ۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا ہم میں ایسی خوبی کہاں پائی جاتی ہے۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انسان کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ اس کا اخلاق اچھا نہ ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ مومن کو ایسا ہونا چاہیے کہ اسے آسانی سے دھوکہ نہ دیا جا سکے۔ آپ کی وفات ۵۱ ہجری میں ہوئی۔ اس طرح حسن رضی اللہ عنہ دنیا سے غداروں اور خائنوں کے ہاتھ شہید ہو کر رخصت ہوئے۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔ مزید معلومات کے لیے کتاب ’’سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما شخصیت اور کارنامے‘‘ پڑھیے۔
Flag Counter