Maktaba Wahhabi

436 - 441
دولت نچھاور کر دی۔ چچا سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ ، پھوپھی سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا ، ماموں قاسم، عبداللہ اور ابراہیم رضی اللہ عنہم اور خالائیں سیدات زینب، رقیہ اور ام کلثوم علیہ السلام تھیں ۔ کیا کائنات میں ان سے اعلیٰ شریف و نسب والا کوئی شخص ہو سکتا ہے؟ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے شجرہ نسب پر نظر دوڑائیں تو وہ بلاشبہ حسب و نسب کے لحاظ سے بہترین مقام کے حامل ہیں ۔ صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن، سیدنا حسین رضی اللہ عنہما اور ان کے والد اور والدہ پر چادر ڈالی اور فرمایا اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ناپاکی دور کر دے اور انہیں اچھی طرح پاکیزہ بنا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے فرمایا کرتے تھے یہ دنیا میں میری خوشبو ہے یہ میرا سردار بیٹا ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان کی عمر زیادہ نہ تھی کم سنی کا زمانہ تھا۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا طرز عمل ان کے ارشادات سے واضح ہے ان کا یہ حکم عام تھا کہ اہل بیت کے معاملے میں ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا خیال رکھو۔ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو انہوں نے بھی اہل بیت کے ساتھ نہایت عمدہ سلوک کیا یہ دور مسلمانوں کے لیے سنہری دور تھا۔ خوب فتوحات ہوئیں اور بے حد و حساب مال غنیمت آیا۔ چنانچہ امیر المومنین نے بیت المال کی مضبوطی پر توجہ دی۔ مسلمانوں کو بیت المال سے باقاعدہ سالانہ وظائف دئیے جاتے تھے۔ سب سے زیادہ رقم ان صحابہ کے لیے تجویز کی گئی جو غزوہ بدر میں شریک ہوئے تھے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور ان کے چھوٹے بھائی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اگرچہ غزوہ بدر کے وقت پیدا ہی نہ ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود ان کا مقام و مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دل میں اتنا زیادہ تھا کہ ان کو بدری صحابہ رضی اللہ عنہم کے برابر یعنی پانچ پانچ ہزار درہم سالانہ وظیفہ ملتا تھا۔ سیدنا عمر فاروق اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا وظیفہ بھی اتنا ہی تھا۔ جس رجسٹر میں وظیفہ پانے والوں کا اندراج تھا ان میں سب سے پہلا نام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا تھا۔ دوسرا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اور تیسرا سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ہاں اہل بیت کا کیا مرتبہ و مقام تھا۔ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ جوان ہو چکے تھے۔ وہ ان کے خالو تھے اس لیے ان کا رویہ اور برتاؤ بھی نہایت شفقت آمیز تھا۔ انہی کے دور خلافت میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جہاد میں عملاً حصہ لیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ۳۰ ہجری میں سیدنا سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں طبرستان پر فوج کشی ہوئی تو اس میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے بھی حصہ لیا تھا۔ جب باغیوں نے خلیفہ سوم سیدنا عثمان بن عفان کے گھر کا
Flag Counter