((اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِیْ اَہْلِ بَیْتِیْ))
’’میں تمہیں اپنے اہل بیت کے (حقوق کے) بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈراتا ہوں ۔‘‘
اہل سنت و الجماعت اس وصیت کے نفاذ میں سعادت مند قرار پاتے ہیں ۔ وہ نہ تو بعض انتہا پسند لوگوں کی طرح ہیں جو سیدنا حسین اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما کی محبت میں انتہائی غلو کے مرتکب ہوتے ہیں حتیٰ کہ انہیں بعض اوقات نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی آگے بڑھا دیتے بلکہ انہیں مقام الٰہی تک پہنچا دیتے ہیں اور نہ ان لوگوں کی طرح ہیں جو اہل بیت سے بغض رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال لیتے ہیں ۔
قارئین کرام! ان سطور کے راقم کو الحمد للہ تمام اہل بیت کے ساتھ انتہا درجے کی محبت ہے میں ان کی محبت کو ایمان کا لازمی حصہ سمجھتا ہوں ۔ میرے نزدیک انہیں کسی بھی قسم کی قولی یا فعلی اذیت دینا حرام ہے۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قیامت کے دن ہمارا حشر ان اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہو۔ مگر ساتھیو! ہم اس بات پر غور کیوں نہ کریں کہ ہمیں ان کی محبت کے لیے غیر مستند قصے کہانیوں کی کیا ضرورت ہے؟ کتنے ایسے واقعات ہیں جو درست نہیں ہیں ۔ لوگ انہیں اپنی تقریروں اور تحریروں میں بیان کرتے اور لکھتے آئے ہیں ۔ ہم پوری دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ روشنی کے ان میناروں کی عظمت و شان کے اظہار کے لیے خود ساختہ واقعات کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ان خود ساختہ واقعات سے اُن کی شان بڑھ سکتی ہے۔ یہ گھرانہ تو وہ مقدس اور مبارک گھرانہ ہے جس کی رفعت، بلندی اور شان اللہ تعالیٰ نے خود بڑھا دی ہے۔ میں جب بھی ان نفوس قدسیہ کی سیرت پر غور کرتا ہوں تو مجھے چشم تصور سے مدینہ طیبہ میں ننھے سے حسین رضی اللہ عنہ نظر آتے ہیں جن کے ہونٹوں کو سرور کونین رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم چوما کرتے تھے۔
ایک دن جب وہ اپنے بھائی حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ سرخ لباس پہنے مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ چھوٹے چھوٹے معصوم گرتے پڑتے اپنے نانا محترم کی طرف آگے بڑھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رہ نہ سکے منبر سے نیچے اترے اور ان دونوں بھائیوں کو گود میں اٹھا کر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے:
﴿اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ﴾ (الانفال: ۲۸، التغابن: ۱۵)
’’تمہارے اموال اور اولاد آزمائش ہیں ۔‘‘
میں نے اپنے بیٹوں کو گرتے پڑتے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا تو صبر نہ کر سکا اور خطبہ درمیان میں منقطع کر کے منبر سے اترا اور ان دونوں کو گود میں اٹھا لیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں بھائیوں سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم کے ساتھ ان دونوں کو ایک اعزاز عطا فرمایا کہ
|