وقت ہوگیا تو انہوں نے وضو کے بغیر ہی نماز پڑھ لی، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو اس بارے شکایت کی، جس کے نتیجے میں اس موقع پر تیمم کی آیت نازل ہوئی، اس پر اسید بن حضیر نے کہا: اللہ آپ کو جزائے خیر دے، اللہ کی قسم! جب بھی تم کو کسی نا پسندیدہ چیز سے واسطہ پڑا تو اللہ نے تمہارے لیے اس سے نکلنے کا راستہ بنایا اور اس میں مسلمانوں کے لیے برکت رکھی۔ [1]
۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خواہش ظاہر کی کہ عائشہ کے گھر میں آپ کی تیمار داری کی جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ان کے ہاتھوں میں ان ہی کے باری کے دن ہوئی، اور دنیا کے آخری لمحات میں اللہ نے ان دونوں کے تھوک کو جمع کر دیا، اور ان ہی کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوئی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ عبدالرحمن بن ابو بکر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اس وقت میں اپنے سینے سے آپ کو ٹیک لگائے ہوئے تھی، عبدالرحمن کے پاس ایک تازہ مسواک تھی، جس سے وہ مسواک کر رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو گھور کر دیکھا، تو میں نے ان سے مسواک لیا اور اس کو خوب چبایا اور بہترین بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا، آپ نے اس سے مسواک کیا۔ [2]
۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبری دی کہ عائشہ جنتی ہیں ۔
امام بخاری نے قاسم بن محمد سے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ بیمار ہوئیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے پاس آئے اور فرمایا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر کے پاس سچی جانشین ہو کر جا رہی ہو۔ ابن عباس کا قطعیت کے ساتھ ان کو جنتی کہنا اپنی طرف سے نہیں ہوگا، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے کی وجہ سے ہی ہوگا۔
امام بخاری رحمہ اللہ اور ترمذی نے عبداللہ بن زیاد اسدی سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا کہ انہوں نے کہا: میں نے عمار کو فرماتے ہوئے سنا: یہ آپ کی دنیا اور آخرت میں بیوی ہیں ۔ [3]
۹۔ حضرت عائشہ امت مسلمہ کی عورتوں میں سب سے بڑی عالمہ ہیں ، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے شمار حدیثوں کو روایت کیا ہے، جن کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے، [4] اسی وجہ سے مسائل علمیہ میں
|