کرتے رہیں مجتہدین اپنا اجتہاد اور دیتے رہیں فتویٰ دینے والے اور چاہے ان افعال کو بے حد اجر و ثواب کا حامل بھی قرار دیتے رہیں ۔ بے شک ان افعال کی حیثیت جذبات، عادات اور رسومات سے زیادہ کی نہیں ۔ جن کے پہلے یہ لوگ خود عادی بنے، بعد میں اگلی نسلوں نے اس کو مذہبی ورثہ سمجھ کر اپنا لیا۔ بلاشبہ یہ نسل در نسل اندھی تقلید کا ایک بدترین نمونہ ہے اور انہیں اس کا شعور تک نہیں ۔ بلکہ بعض نادان تو زنجیر زنی کے ذریعے اپنا خون بہانے کو قربتِ الٰہی کا قوی ذریعہ سمجھتے ہیں اور بعض یہ گمان رکھتے ہیں کہ جو یہ افعال نہیں کرتا اسے حسین رضی اللہ عنہ سے کوئی محبت نہیں ۔‘‘[1]
آگے چل کر تیجانی لکھتا ہے کہ
’’میں ان وحشت انگیز اور نفرت آمیز مناظر پر ذرا بھی مطمئن نہیں بلاشبہ عقل سلیم ان باتوں سے دور اور نفور ہوتی ہے۔ چنانچہ جب ایک آدمی بدن ننگا کر کے جنونیوں کی طرح چیخ چیخ کر حسین حسین کہتے ہوئے ہاتھوں میں تیز دھاری زنجیر لے کر اپنا بدن چھلنی کرنے لگتا ہے تو ایک معتدل مزاج انصاف پسند انسان اس منظر کو دیکھ کر شدید کراہت کرتا ہے اور اس سے بھی زیادہ عجیب تر بات یہ ہے کہ ابھی جو لوگ یوں لگتے تھے کہ حسین کا غم ان کی جان ہی نکال لے گا، لیکن یہ کیا کہ جیسے ہی وہ ماتمی جلوسوں کے اختتام پر اکیلے ہوتے ہیں تو کمال لا پراوہی سے کھا پی اور ہنس رہے ہوتے ہیں ۔ ان کے تمام تر جذبات جو جنون کی حد کو چھو رہے تھے کیا جلوس کے ختم ہوتے ہی اپنی موت آپ مر گئے؟!! اور اس سے بھی عجیب تر بات یہ ہے کہ غم حسین میں چاقوؤ ں ، خنجروں اور تلواروں سے اپنے بدن چھلنی اور لہو لہو کرنے والے اکثر لوگ پرلے درجے کے بے دین اور بدقماش ہوتے ہیں ۔ اسی لیے میں اپنے آپ کو یہ کہنے سے اکثر نہیں روک پاتا کہ تم لوگ جو یہ سب کچھ کرتے ہو یہ محض ڈھکوسلا اور اندھی تقلید ہے۔‘‘[2]
یہ ایک شیعہ مصنف کا اقرار و اعتراف ہے ۔ شیخ حسن مغنیہ کا قول بھی اس کے قریب قریب ہے، وہ کہتا ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ چاقو اور خنجر مار کر سروں کو زخمی کرنا اور ان سے خون نکالنا اسلامی احکام میں سے نہیں اور نہ اس بارے کوئی صریح نص ہی آتی ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ یہ ایک اعلی جذبہ ہے جو مومنوں کے دلوں میں جوش مارتا ہے، اس دل فگار اور روح فرسا واقعہ پر جس میں
|