کے مقام و مرتبہ کا کوئی پاس ولحاظ نہ کیا گیا، بغیر پالان اور کجاووں کے ان کو اونٹوں کی ننگی پیٹھوں پر سوار کیا گیا، اور نہ جانے کیا کیا۔ بلاشبہ یہ سب کی سب کوفیوں کی خرافات اور دروغ بافیاں ہیں جو ان کے اس کینہ اور نخوت کی غمازی کرتی ہیں جو یہ مسلمانوں کے جیوں میں پھونکنا چاہتے ہیں تاکہ مسلمانوں کی اخوت و ہمدردی پارہ پارہ ہو اور شقاق و نفاق اور بغض و عداوت کو ان کے جیوں میں زہریلے تیر کی طرح پیوست کر دیا جائے۔ اسی طرح ان کوفیوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن کی بابت جن محیّرالعقول روایات کو گھڑا ہے، جن کا بیان گزشتہ میں گزر چکا ہے، جو ان کے بنیادی عقائد کا حصہ ہیں ، ان سے غرض جناب حسین رضی اللہ عنہ کی تعظیم و توقیر یا تصدیق نہیں بلکہ اسلامی تاریخ کی جڑوں میں فتنہ اور شقاق کا بیج بونا ہے، تاکہ انجان لوگوں پر شہادت حسین کا الم ناک واقعہ ایک چیستاں بن کر رہ جائے۔
غرض ایک طرف یہ روایات ہیں تو دوسری طرف وہ روایات بھی ہیں جو بتلاتی ہیں کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کا سن کر یزید رونے لگا تھا اور بے اختیار کہہ اٹھا:
’’اگر حسین رضی اللہ عنہ ابن مرجانہ فارسیہ کے قرابت دار ہوتے تو وہ ایسا کبھی نہ کرتا۔‘‘[1]
ابن مرجانہ پر یزید کو اس بات کا بے حد افسوس تھا کہ اس نے اس اقدام کی جرأت کیونکر کی، لیکن مجوسیت اور فارسیت کے اس بغض اور کینہ کا کیا کیجیے جو ابن زیاد کی رگ رگ میں پیوست تھا اور یہ اس کا نسبی ورثہ تھا۔ بلاشبہ ابن زیاد نے اپنی ایرانی ماں کے مجوسی خون کے اثرات کو بدن کے روئیں روئیں میں محفوظ کر رکھا تھا جس میں عربوں کے لیے رحم نام کی کوئی چیز نہ پائی جاتی تھی، چاہے وہ جو بھی ہو!!!
امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’گمانِ غالب ہے کہ اگر قتل و شہادت سے قبل یزید سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ پر قابو پا لینے میں کامیاب ہو جاتا تو انہیں ضرور معاف کر دیتا جیسا کہ اسے ان کے والد سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی جناب حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں کڑی تاکید تھی اور جیسا کہ خود اس نے بھی یہ روح فرسا خبر سن کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنے دل کے خیالات کا برملا اظہار کیا تھا۔ چنانچہ ابن زیاد کو لعنت و ملامت کرتے ہوئے بظاہر یزید نے انہی جذبات کا اظہار کیا تھا۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ اس سب کے باوجود یزید نے نہ تو ابن مرجانہ کو معزول کیا، نہ اس پر کوئی عتاب کیا اور نہ کسی کو بھیج کر اس کے اس قبیح فعل پر کسی غم و غصہ کا اظہار ہی کیا۔ و اللہ اعلم۔‘‘[2]
|