Maktaba Wahhabi

257 - 441
’’میں نے یہ حدیث چند لوگوں کو سنائی، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ہم سر زمین روم میں اس غزوہ میں نکلے ہوئے تھے جس میں حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا تھا اور اس وقت یزید بن معاویہ ہمارے امیر اور قائد تھے۔‘‘[1] ایسے ابرار و اخیار صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ یزید کا ایک لشکر میں ہونا ان روایات کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے جو یہ بیان کرتی ہیں کہ یزید شراب خوری اور لہو و لعب کا عادی تھا لیکن اس کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کے امیر ہونے پر راضی تھے۔ حاشا و کلا کہ اگر یزید ایسی باتوں کا مرتکب ہوتا جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اخلاق کے متناقض ہوتی ہیں تو سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جیسا متبع سنت شخص معاصی کے مرتکب ایک امیر کی قیادت میں کسی غزوہ میں کیونکر شریک ہو سکتا تھا؟ بلاشبہ ایسی روایات سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دیانت اور تقویٰ کو موردِ طعن بنایا جاتا ہے کہ یہ لوگ منکرات پر راضی تھے اور دراصل یزید کی کردار کشی کی آڑ میں زیادہ مقصود خود حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کردار کشی ہوتی ہے۔ دوسرے یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ ان روایات کی خود علمی دنیا میں کوئی قدر و قیمت نہیں ، چاہے یہ روایات زبانِ زد خلائق ہی ہیں ۔ اس طرح حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہم جیسے اکابر صحابہ کا اس لشکر میں شریک ہونا جس کی قیادت یزید کر رہا ہو،[2] اس بات کی بہتر دلیل ہے کہ یزید استقامت کی صفت سے متصف تھا، اس میں متعدد صفات حمیدہ جمع تھیں اور اس میں مہمات امور کو سر انجام دینے کی صلاحیتیں موجود تھیں ، وگرنہ ایسے افاضل و اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم ایک فاسق و فاجر -جیسا کہ زبان زد خلائق ہے- کی زیر قیادت کبھی کسی غزوہ میں نہ نکلتے۔ دوسرے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مبارک زندگیوں کا صرف ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا ’’اعلائے کلمۃ اللہ۔‘‘ پھر یزید کی بیعت کرنا جناب ابن عمر رضی اللہ عنہما کا کوئی عارضی موقف نہ تھا۔ چنانچہ جب حرہ کا واقعہ پیش آیا اور لوگوں نے یزید کی بیعت ختم کر دی تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے بچوں کو جمع کیا، پھر کلمہ شہادت پڑھا، پھر فرمایا:
Flag Counter