Maktaba Wahhabi

253 - 441
جن کا قول و فعل صادق ہے۔‘‘[1] یہ ہیں کوفی شیعہ اور ان کے ہم عقیدہ لوگ جن کی بداعمالیاں پوری امت کے سامنے کھلے بندوں موجود ہیں اور ہر شخص کی انگلی ان کی طرف اٹھ کر یہ کہہ رہی ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت رسول کے قاتل یہی غدار اور گناہ گار ہیں جنہوں نے اس امت کو اور خاص طور پر حضرات اہل بیت کو پے درپے ہلاکتوں میں ڈالا۔ یہ لوگ امت مسلمہ اور آل بیت رسول کے خلاف جرائم کے کس قدر رسیا اور خوگر ہیں !!! ان دین دشمنوں کی شخصیت و کردار کا دوسرا گھناؤ نا ترین پہلو یہ ہے کہ روئے زمین کے معزز و محترم ترین انسانوں کا خون بہانے اور گردنوں تک شرور و فتن اور فسق و فجور کی دلدل میں دھنسے ہونے کے باوجود امت مسلمہ کو آج تک دھوکہ دینے میں جتے ہوئے ہیں تاکہ خود پر سے جرائم کے ثبوتوں کے داغوں کو مٹا سکیں اور کسی کے دل میں یہ خیال تک نہ آنے دیں کہ ’’خون حسین کے اصل ذمہ دار کون ہیں ؟ اور ان سے اس پاکیزہ ترین خون کا مطالبہ کیونکر کیا جائے؟!!‘‘ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جو بھی سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کے لیے جرأت رندانہ کرتے ہوئے میدان جہاد میں اترنا چاہے، اسے اترنے سے قبل ہی سازشوں کے جال میں بری طرح الجھا کر جان سے مار ڈالا جائے۔ پھر اپنی ان بدبختانہ اور شقیانہ کاوشوں میں ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے امت مسلمہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور رب کی کتاب سے دور کر کے یہود و مجوس کے رسوم و رواج میں دھکیلنے کی جہد مسلسل جاری رکھی جائے اور یہ سارا گھناؤ نا کھیل آل بیت رسول کی محبت کی آڑ میں کیا جائے۔ سب سے خطرناک یہ کہ دین اسلام کے امین، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوّلین اور سچے جاں نثاروں اور اسلام کے پہلے خدمت گاروں ’’حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ‘‘ پر طعن و تشنیع اور سب و شتم کے چھینٹے اڑا کر ان کے پاکیزہ کردار، بے لوث قربانیوں اور مبنی براخلاص جہادی کاوشوں کو مشکوک ٹھہرایا جائے، تاکہ آنے والی نسلوں کا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر سے اعتبار اٹھ جائے اور ہر کہ و مہ اور ہر بے اوقات اور بے وقار اٹھ کر ان پر زبانِ طعن دراز کرتا پھرے اور جو جی میں آئے ان پر اناپ شناپ بول دے۔ مذکورہ بالا نصوص کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد کسی عاقل اور دانا و بینا پر یہ امر مخفی نہیں رہ سکتا کہ اہل کوفہ ہی دراصل قاتلانِ حسین ہیں ، جنہوں نے مقتل حسین رضی اللہ عنہ کو ایک لاعلاج زخم بنا کر رکھ دیا ہے اور آج تک امت اس گہرے گھاؤ کو بھرنے کے لیے اپنی وحدت، امن و سلامتی اور عقیدہ و مذہب کی قربانی کی بھاری قیمت ادا
Flag Counter