ہلاکت ہو ان اعمال سے جو تم لوگوں نے اپنے واسطے آخرت میں بھیج دئیے ہیں ۔ تمہاری رائے کا برا ہو۔ روزِ قیامت تم لوگ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آنکھیں ملا سکو گے جب وہ تم سے یہ فرمائیں گے: ’’تم لوگوں نے میری عترت کو قتل کر ڈالا، میری حرمت کو توڑا، پس تم میرے امتی نہیں ہو۔‘‘ یہ سننا تھا کہ ہر طرف سے عورتوں کے رونے کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور وہ ایک دوسرے کو ملامت کرتے ہوئے کہنے لگے: تم لوگ ہلاکت میں جا پڑے اور تمہیں اس کی خبر بھی نہیں ۔‘‘ پھر امام زین العابدین رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے میری نصیحت کو قبول کیا اور اللہ، اس کے رسول اور اس کے اہل بیت کے بارے میں میری وصیت کو یاد رکھا۔ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ اس پر وہ سب کے سب کہنے لگے: ’’ہم سب آپ کی بات سنیں گے، مانیں گے، آپ کے ذمہ کی حفاظت کریں گے، آپ سے منہ نہ موڑیں گے اور نہ آپ سے جفا ہی کریں گے، آپ حکم کیجیے ہم مانیں گے، اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ جہاں آپ جنگ کریں گے ہم بھی جنگ کریں گے اور جس سے آپ صلح کریں گے اس سے ہماری بھی صلح ہے۔ ہم یزید کو پکڑیں گے اور جس نے آپ پر اور ہم پر ظلم کیا ہے، ہم اس سے بری ہیں ۔‘‘ جناب زین العابدین رحمہ اللہ نے کہا: دُور ہو جاؤ ، دُور ہو جاؤ ، اے غدارو، مکارو! تم لوگوں کو تمہاری شہوتوں نے گھیر رکھا ہے، کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ تم لوگ میرے ساتھ بھی وہی کرو جو اس سے پہلے تم نے میرے باپ دادا کے ساتھ کیا ہے؟ ہرگز نہیں ، ناچنے والیوں کے رب کی قسم! یہ زخم بھرنے والا نہیں ۔ یہ کل ہی کی تو بات ہے کہ تم لوگوں نے میرے باپ کو اس کے گھر والوں سمیت قتل کر ڈالا ہے، بھلا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل سے محرومی کا غم، اپنے باپ اور باپ کی اولاد کی جدائی کا صدمہ کیسے بھول سکتا ہوں ، ان کا غم میرے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا، اس کی تلخی میرے گلے میں اب تک موجود ہے اور اس کی کڑواہٹ میرے سینے میں گردش کر رہی ہے۔‘‘[1]
امام زین العابدین رحمہ اللہ چند کوفیوں کے پاس سے گزرے جو قتل حسین پر رو رہے اور نوحہ کر رہے تھے تو آپ نے انہیں ڈانٹتے ہوئے فرمایا: تم لوگ ہم پر رو رہے اور نوحہ کر رہے ہو، ذرا یہ تو بتلاؤ ہمارا قاتل ہے کون؟[2]
|