چھڑوانے کے لیے ایک عظیم لشکر لے کر کوفہ پہنچا تھا۔ لیکن آج اسی ابن حجاج کا حال یہ تھا کہ وہ امام حسین( رضی اللہ عنہ ) پر بے دین ہونے کی تہمت لگا رہا تھا۔ چنانچہ وہ اپنے لشکر سے خطاب کر کے کہتا ہے: ’’اس شخص سے قتال کرو جو دین سے نکل گیا ہے اور اس نے جماعت کو چھوڑ دیا ہے۔‘‘[1]
حسین کورانی یہ بھی لکھتا ہے:
’’ایک اور موقف بھی یہ بتلاتا ہے کہ اہل کوفہ منافق تھے۔ وہ یہ کہ عبداللہ بن حوزہ تمیمی امام حسین علیہ السلام کے سامنے آ کر کھڑا ہوتا ہے اور پکار کر کہتا ہے: ’’کیا تم میں حسین ہیں ؟ یہ تمیمی کوفی تھا اور کل تک امام حسین علیہ السلام کے شیعہ میں شمار کیا جاتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی انہی لوگوں میں سے ہو جنہوں نے امام حسین کو خط لکھے تھے یا شبث کی جماعت میں سے ہو جس نے پہلے تو خط لکھا، پھر یہ کہا: ’’اے حسین! تمہیں آتش جہنم کی بشارت ہو۔‘‘[2]
مرتضی مطہری پہلے خود یہ سوال اٹھاتا ہے کہ اہل کوفہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و تعلق اور شفقت و عنایت رکھنے کے باوجود ان سے قتال کرنے کیونکر نکلے؟ پھر خود ہی جواب دیتے ہوئے کہتا ہے:
’’اس کا جواب یہ ہے کہ اہل کوفہ پر زیاد اور معاویہ( رضی اللہ عنہ ) کے ادوار سے ایک عمومی خوف اور رعب چھایا ہوا تھا جو عبیداللہ بن زیاد کے کوفہ آنے کے بعد بے حد زیادہ ہو گیا۔ کیونکہ عبیداللہ نے آتے ہی میثم التمار، رشید، مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ کو قتل کر ڈالا تھا۔ کوفیوں کے اقدام قتل کی دوسری بنیادی وجہ مال و ثروت اور عہدہ و منصب کی اندھی حرص تھی۔ جیسا کہ یہی حال عمر بن سعد کا تھا۔ کوفہ کے سرداروں اور سربر آوردہ لوگوں کو عبیداللہ نے ڈرا دھمکا کر رام کر لیا ہوا تھا اور پہلے دن سے ہی ان پر مال و دولت کو نچھاور کیے رکھا جس سے اہل کوفہ کی حرص و طمع کو قرار مل گیا ہوا تھا۔ چنانچہ ابن زیاد نے پہلے دن ہی ان سب کو جمع کر کے ان میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ جس کا بھی اہل معارضہ سے تعلق ثابت ہو گیا اس کا وظیفہ بند کر دیا جائے گا۔ اسی بنا پر عامر بن مجمع عبیدی یا مجمع بن عامر عبیدی یہ کہتا ہے: ’’کوفہ کے سرداروں کو اس قدر رشوت ملی کہ ان کا جی بھر گیا۔‘‘[3]
|