اپنے ایک خطاب میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہما اہل کوفہ کو ان کا وہ سابقہ رویہ یاد دلاتے ہیں جو انہوں نے آپ کے والد ماجد اور بڑے بھائی کے ساتھ روا رکھا تھا، چنانچہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اور اگر تم لوگوں نے ایسا نہ کیا اور میرے ساتھ کیا اپنا عہد توڑ ڈالا اور میری بیعت توڑ دی تو میری عمر کی قسم! یہ تمہارے لیے کوئی انوکھا کام نہیں ۔ ایسا تم میرے والد، میرے بھائی اور چچا زاد مسلم بن عقیل کے ساتھ بھی کر چکے ہو۔ دھوکہ کھانے والا وہی ہے جس نے تم لوگوں پر اعتبار کیا ہے۔‘‘[1]
شیعی روایات خود بتلاتی ہیں کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کے خطوط پر شک تھا چنانچہ مقرم لکھتا ہے، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ان لوگوں (یعنی اہل کوفہ) نے مجھے ڈرایا، یہ رہے ان کوفیوں کے خطوط، یہی میرے قاتل ہیں ۔‘‘[2]
ایک اور موقعہ پر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے قاتلوں کو واضح کرتے ہوئے جو کہا، صاحب ’’منتہی الآمال‘‘ عباس قمی لکھتا ہے:
’’اے اللہ ہمارے اور اس قوم کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے ہمیں ہماری مدد کرنے کے لیے بلایا پھر ہمیں قتل کر ڈالا۔‘‘[3]
یہی اصل حقیقت ہے کہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے قاتل خود ان کو بلوانے والے ہیں جنہوں نے آپ کو اس لیے آنے کی دعوت دی تاکہ آپ کی مدد کریں لیکن بعد میں آپ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے۔
حسین کورانی لکھتا ہے:
’’اہل کوفہ نے امام حسین( رضی اللہ عنہ ) سے صرف متفرق ہونے پر ہی اکتفا نہ کیا تھا بلکہ اپنے ہر لمحہ بدلتے موقف کے نتیجہ میں ایک تیسرے موقف کی طرف منتقل ہو گئے۔ وہ یہ کہ اہل کوفہ امام حسین( رضی اللہ عنہ ) سے قتال کرنے کے لیے میدان کربلا کی طرف تیزی سے لپکے اور اس امر میں عجلت کرنے لگے جو شیطان کی رضا اور رب رحمن کی ناراضی کا سبب تھا۔ مثلاً عمرو بن حجاج کو ہی دیکھ لیجیے جو کل تک کوفہ میں اہل بیت کا سب سے بڑا طرف دار اور حمایتی تھا اور وہ ہانی بن عروہ کو
|