انھی کوفیوں نے خطوط لکھ کر آنے کی دعوت دی ہے، وہیں حر اور اس کے ساتھی بھی اس بات میں سچے تھے کہ انہیں ان خطوط کی بابت مطلق کسی بات کا علم نہیں ۔ تو پھر حقیقت کیا تھی؟!!
حقیقت یہ تھی کہ اس ساری سازش کے پس پردہ مکار سبائیت ہاتھ تھا جنہوں نے کل یہی کھیل سیّدنا عثمان بن عفان شہید رضی اللہ عنہ اور سیّدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کھیلا تھا۔
غرض حر بن یزید نے نہ تو آپ کو کوفہ داخل ہونے کی اجازت دی، نہ آپ کو یزید کے پاس شام چلے جانے کی اجازت دی اور نہ آپ کو مدینہ ہی لوٹ جانے دیا۔ بلکہ یہ کہا کہ آپ ایسا راستہ اپنا لیجیے جو نہ شام جاتا ہو اور نہ مدینہ تاکہ مجھے آپ کے بارے میں یزید سے خط کتابت کرنے کا موقعہ مل سکے۔[1]
پھر جب آپ کی ملاقات کوفی لشکر کے امیر عمر بن سعد سے ہوئی تو آپ بے حد پریشان ہو گئے۔ اہل کوفہ آپ کا ساتھ چھوڑ چکے تھے، ان غداروں نے آپ کی نصرت و حمایت کے سب وعدے توڑ دئیے تھے۔ اب آپ کے ساتھ اہل بیت اور قرابت داروں کے سوا معدودے چند لوگ رہ گئے تھے۔ دونوں قوتوں کے درمیان عظیم فرق دیکھ کر آپ نے عمر بن سعد کے ساتھ گفتگو اور مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا اور طویل بحث مباحثہ کے بعد فریقین کا تین باتوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے پر اتفاق ہو گیا کہ
٭ … یا تو آپ کو یزید کے پاس شام بھیج دیا جائے تاکہ آپ یزید کی بیعت کر لیں ۔
٭ … یا پھر آپ کو مدینہ واپس جانے دیا جائے۔
٭ … یا پھر اسلامی سرحدوں میں سے کسی بھی سرحد پر جہاد کی غرض سے جانے کی اجازت دے دی جائے۔
چنانچہ عمر بن سعد نے ابن زیاد کو یہ خط لکھ بھیجا:
’’اما بعد! اللہ نے جنگ کی آگ بجھا دی، وحدتِ کلمہ پیدا کر دی اور امت کے امر کی اصلاح کر دی، یہ رہے حسین( رضی اللہ عنہما ) جنہوں نے مجھے ان باتوں میں سے کسی ایک بات کے اختیار کر لینے کا عہد دے دیا ہے کہ یا تو وہ ادھر لوٹ جائیں جہاں سے آئے تھے (یعنی مدینہ لوٹ جائیں )۔ یا ہم انہیں اسلامی سرحدات میں سے جس سرحد پر چاہیں بھیج دیں ۔ وہاں یہ ایک عام مسلمان بن کر جہاد میں مصروف رہیں گے اور جو حقوق و واجبات دوسروں کے ہوں گے وہی ان کے بھی ہوں گے۔ یا پھر وہ امیر المومنین یزید کے پاس چلے جاتے ہیں اور ان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتے ہیں ، پھر ان کے بارے میں جو آپ کی رائے ہو وہ انہیں منظور ہو گی۔ ان باتوں میں آپ کی مرضی اور امت کی اصلاح ہے۔‘‘
|