تھی، لیکن جب آپ کو غدار و کذاب کوفیوں کے موقف کا علم ہوا اور آپ نے ان کی جفاکاری اور بے وفائی بھی آنکھوں سے دیکھ لی اور مطالبہ کے باوجود انہوں نے مدد و نصرت کرنے سے آپ کو ٹکا سا جواب دے دیا اور آپ نے دیکھ لیا کہ اب ان پر وعظ و نصیحت بے کار اور ان کا دین و دیانت پر آنا دُور ازکار ہے تو…
آپ نے ان کے سامنے تین باتوں کو پیش کیا، تاکہ ان پر حجت تمام ہو۔ لیکن افسوس کہ اہل کوفہ کی یہودیت کے خیمر میں گندھی رفض و سبائیت کی خُو نے انہیں ان تینوں باتوں کو ٹھکرا دینے پر مجبور کر دیا اور بالآخر پیغمبروں کے خونوں سے ہاتھ رنگنے والی یہودیت کے ان پیرو کاروں نے آل پیغمبر کے اُس خون سے ہاتھ رنگ لیے جو ان پر حرام تھا اور اپنے حقیقی آباء کی طرح یہ بھی اللہ اور اس کے رسول کے اور رب کے نیکو کار بندوں کے غضب کو لے کر لوٹے!!
ہائے افسوس کہ آج کی رات گزشتہ رات کے کس قدر مشابہ تھی!!!
ان کوفیوں نے اس گناہ کا ارتکاب کیا تھا جس کا کوئی جواز ان کے دامن دلائل میں موجود نہ تھا۔ امت مسلمہ کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اس غم کو سہنا پڑا جو دنوں کو رات بنا دے، جوانوں کو بوڑھا کر دے اور کوہساروں کو ریگ زار بنا دے۔ جبکہ دوسری طرف ان اعدائے صحابہ کو فتنوں کو ہوا دینے اور ان کی جڑوں کو کذب و مکر سے سینچنے کا نیا سامان ہاتھ لگ گیا جس میں ابن زیاد جیسے عقل و دیانت سے کورے احمق نے مرکزی پُل کا کردار ادا کیا اور رافضی کوفیوں کا شر شر مستطیر بن کر اُمت کے افق پر چھاتا چلا گیا۔ افسوس کہ احمق ابن زیاد نے رفض و سبائیت کا دست و بازو بنتے وقت یہ بھی نہ سوچا کہ جن کو آل رسول کا پاس لحاظ نہیں ان کے سامنے ابن زیاد کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ پھر بالآخر ابن زیاد بھی ان کے مکر و فریب کے جال میں بری طرح جکڑا گیا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
ان کوفیوں نے ابن زیاد کے سامنے جناب حسین رضی اللہ عنہ کی صورت نہایت ہیبت ناک بنا کر پیش کی اور اسے آرام سے اپنے شیشے میں اتار لیا اور اسے اس بات پر تیار کیا کہ اگر تم نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کی کسی بھی بات کو مان لیا تو اس کا منطقی انجام تمہارے ہی سامنے آ کر رہے گا۔ اس لیے خبردار! ابن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ اور رسول کے حکم پر مت اتارنا بلکہ اسے اپنے حکم پر اتارنا اور قوت و شدت کے ساتھ ان کا نام و نشان مٹا دینا۔
بھلا اس سے بھی بڑھ کر حیرت و تعجب کی بات اور کیا ہو گی کہ ابن زیاد نے کوفیوں کی تاریخ سے ذرا سبق نہ سیکھا اور ان کا تیر بن کر رفض کی کمان سے چل گیا اور سیدھا ابن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جا نشانہ بنایا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
لیکن ذرا ٹھہریے! آج ہم امت کے ساتھ ہونے والی ان غداریوں اور امت کو ملنے والے ان زخموں کو
|