مظلوموں کی مدد آپ نے نہ کی تو آپ عند اللہ گناہ گار ہوں گے اور روزِ قیامت آپ کے پاس اپنی عذر خواہی کے لیے کوئی دلیل نہ ہو گی۔
اس لیے عین ممکن ہے کہ ان دجالوں ، عیاروں ، مکاروں اور رافضیوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو جو خطوط لکھے ہوں ان میں والیوں اور گورنروں کے خلاف ان کے خود ساختہ مظالم کی الم ناک داستانیں مذکور ہوں اور ایسی دل پگھلا دینے والی التجائیں اور فریادیں ہوں جنہوں نے جناب حسین رضی اللہ عنہ کے جذبہ شفقت و رحمت کو ان نام نہاد ضعیفوں اور کمزوروں کی نصرت و حمایت کی طرف پھیر دیا ہو۔ چنانچہ ان پر فریب خطوط کی بنا پر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یہ اعتقاد کر لیا کہ اب آپ کا خروج فرض ہے جس سے فرار کی سرِ مو گنجائش نہیں ۔ اسی اعتقاد کا اظہار جناب سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے فرزدق کو یہ کہہ کر کیا تھا کہ میرے پاس ایک اونٹ کے بوجھ کے بقدر ان لوگوں کے خطوط ہیں ۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ آپ کو اس بات کا اطمینان تھا کہ کوفہ میں آپ کے اعوان و انصار ہیں جو آپ کا ساتھ دیں گے اور وہاں تیار فوجیں ہیں جو سربکف ہو کر آپ کی اور آپ کے اہل بیت کی حفاظت کریں گی۔ اسی لیے آپ نے اپنے گھر کی عورتوں ، چچیری اولادوں اور بھائیوں کو بھی ساتھ چلنے کو کہا تھا۔ کیونکہ ان لوگوں نے کوفہ کے سربرآوردہ لوگوں کے نام پر جو، ابن زیاد کے مشیرانِ خاص اور ندماء و جلساء تھے، آپ کو خطوط لکھے تھے کہ چلے آئیے، ہم سب آپ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں ۔ چنانچہ جب ان کوفیوں نے کوفی پنے کا کھل کر مظاہر کیا تو آپ نے انہیں یاد دلاتے ہوئے جو فرمایا اس کو انہی کے ثقہ اور مشہور راوی ابو مخنف کذاب کی زبانی سنتے ہیں ۔ آپ نے انہیں فرمایا: ’’کیا تم لوگوں نے ہی مجھے یہ بات لکھ کر نہ بھیجی تھی کہ پھل پک چکے، ہریالی ہو چکی، پیمانے لبریز ہو گئے اپنے ایسے لشکر کی طرف چلے آئیے جو تیار ہے۔‘‘[1]
خط و کتابت کے اسی مکر و فریب نے پہلے سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی جان لی اور آخر میں سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو مسند شہادت پر بٹھلایا، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کیونکہ ابن سبا کی خفیہ کو فی تنظیم ’’وصیت‘‘ کے گمراہ کن عقیدہ کا پروپیگنڈا کرنے میں سرگرم عمل تھی۔ جس کا بنیادی مقصد امت مسلمہ کی وحدت و مودت کو پارہ پارہ کرنا تھا۔ یہ لوگ بے حقیقت افواہیں اڑاتے، بے اصل غل مچاتے، لوگوں کے ذہنوں کو مشوّش کرتے اس گمراہ جماعت کا مقصد وحید یہی تھا۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کا یہ رویہ آج تک ہے۔
ابومخنف ان گمراہوں کی سیاہ صورت سے پردہ اٹھاتے ہوئے روایت کرتا ہے کہ جب کوفی بے وفائی اور بدعہدی پر اتر آئے تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے زعماء اور سربرآوردہ لوگوں سے یہ کہا: کیا تمہی لوگوں نے
|