مارقانِ دین کو کاروانِ اسلام لوٹنے کا ایک اور موقع فراہم کیا جنہوں نے دین و عقیدہ اور آل بیت نبوت کے دفاع کے نام پر امت مسلمہ کے امن اور اس کے عقیدۂ وحدت کو پراگندہ کر کے رکھ دیا۔
عصر حاضر میں ان کوفیوں کے جدید ایڈیشن کے طرزِ عمل سے اس بات کا مشاہدہ آفتابِ نیم روز کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے کہ جھنڈے تو اٹھائے جاتے ہیں آل بیت کی نصرت کے جبکہ یہی لوگ ہر اس شخص کے درپے رہتے ہیں جنہوں نے رب تعالیٰ کی کتاب اور سیّد آل بیت حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو داڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے تھام رکھا ہوتا ہے۔
اگر بات صرف اسی حد تک موقوف تھی کہ کوفہ کی فضا کو فتنہ و بغاوت کی شورا شوری سے پاک کیا جائے تو اس مقصد کے حصول کے لیے ابن عقیل کی گرفتاری اور انہیں قید و بند میں ڈال دینا ہی کافی تھا۔ لیکن ابن زیاد کے فعل نے جس فکر کی غمازی کی وہ کوفیوں کی اس کج فطرت کو کچلنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال تھا جس کو امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ بھی اپنے دَورِ خلافت میں تلوار کے زور پر کچل نہ سکے تھے۔ لیکن افسوس کہ ابن زیاد اس موقع پر طاقت کے استعمال میں حد سے تجاوز کر گیا اور اس فعل کا ارتکاب کر گیا جس کا کوفیوں کی کج فطرت کو کچلنے کے ہدف سے ادنیٰ سا بھی تعلق نہ تھا اور وہ مسلم بن عقیل کا قتل تھا۔
لیکن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد جب سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم کے ساتھ سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کا جود و کرم مل گیا تو اس بیماری کو کاٹ کر رکھ دیا گیا، فتنہ کی تلوار نیاموں میں ڈال دی گئی اور امت کی وحدت و یگانگت اور الفت و مودت دوبارہ لوٹ آئی۔ رافضی سبائیت کا سخت گھیراؤ کیا گیا اور اب وہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم و بردباری کے حصار میں بری طرح ذلیل و رسوا کی گئی۔ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی بے پناہ ذہانت و ذکاوت اور حزم و احتیاط کے آگے سبائیت دم سادھ کر رہ گئی۔ لیکن سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس دنیا سے پردہ کرتے ہی سبائیت نے امت مسلمہ کی پیٹھ میں ایک بار پھر اپنے زہریلے دانت گاڑنے شروع کر دئیے اور حقد و کینہ، کھوٹ اور مکر کے وہی فتنے کھڑے کرنے لگے جو سیّدنا عثمان شہید اور سیّدنا علی شہید رضی اللہ عنہما کی زندگیوں میں کھڑے کیے تھے۔ فتنوں کی اس آگ نے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی حیات طیبہ کو گھیرے میں لے لیا اور بالآخر انہیں شہید کر کے چھوڑا۔ یاد رہے کہ بعد میں اسی آگ میں ابن زیاد اور اس کے اعوان و انصار بھی جل کر خاکستر ہو گئے تھے۔
ابن زیاد کوفہ کے معاشرتی، سیاسی اور فکری مکاتب فکر کا ایک طالب علم اور فارغ التحصیل تھا، جہاں کی بنیادی تعلیم فتنہ پروری، جعل سازی اور انارکی پھیلانا تھی۔ افسوس کہ ابن زیاد نے کوفہ کے ’’نصاب تعلیم‘‘ سے تو خوب فائدہ اٹھایا لیکن ان جلیل القدر علماء و فضلاء کے علم و عمل سے استفادہ کرنے سے محروم رہا جنہوں نے اس
|