Maktaba Wahhabi

155 - 441
لوگوں سے اچھی بات کرنا جیسا کہ اللہ نے تمہیں اس بات کا حکم دیا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ چھوڑنا وگرنہ تمہارے امور ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے جو بدترین ہوں گے پھر تم دعا مانگو گے مگر قبول نہ ہو گی۔ ایک دوسرے سے تعلق رکھنا اور ایک دوسرے پر خرچ کرنا اور قطع تعلقی، بے رخی اور تفرقہ سے بچنا اور نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور گناہ اور ظلم میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرنا۔ اللہ سے ڈرتے رہنا کہ اس کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ اے اہل بیت! اللہ تمہاری حفاظت کرے اور تمہارے بارے میں تمہارے پیغمبر کی حفاظت کرے۔ میں الوداع کہتا ہوں اور تم لوگوں کو رب کے حوالے کرتا ہوں اور تم لوگوں کو سلام کہتا ہوں ۔‘‘ اس کے بعد سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ صرف لا الٰہ الا اللہ کا ورد کرتے رہے اور ماہِ رمضان ۴۰ ہجری میں اس دارِ فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے آپ کو غسل دیا۔ آپ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا جس میں کوئی قمیص نہ تھی۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے نو تکبیروں کے ساتھ آپ کا نماز جنازہ پڑھایا۔ آپ کے بعد سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ چھ ماہ تک سریر آرائے مسند خلافت رہے۔[1] یہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی واضح وصیت ہے جس میں اس مزعومہ وصیت کا دُور دُور تک بھی پتا نہیں ۔ جس کی بنیاد پر ان ناہنجاروں نے ائمہ اسلاف، ائمہ اہل بیت اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم پر طعن و تشنیع کیا جاتا ہے تاکہ امامت اور مظلومیت کے جذباتی نعروں کی آڑ میں امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیر دیں اور اس کی وحدت پارہ پارہ کر دیں ۔ اس وصیت میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز کی حفاظت کی دعوت دی ہے، سنت و جماعت کو مضبوطی سے تھامنے کی نصیحت کی ہے، فتنوں سے دُور رہنے کی فہمائش کی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی زبردست ترغیب دی ہے۔ یہ وصیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت اور ان کی تعظیم و توقیر کرنے کو بیان کرتی ہے کیونکہ اس بات کی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو وصیت فرمائی تھی۔ اس وصیت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمنوں اور حاسدوں سے بچنے کی تاکید ہے۔ تواضع، انفاق فی سبیل اللہ، نیکیوں پر تعاون اور قول حق کی حمایت کی ترغیب ہے اور آخری بات یہ ہے کہ ان سب باتوں میں ایک اکیلے اللہ سے مدد لی جائے۔
Flag Counter