ماموں جنت میں ہے، اور یہ دونوں (خود بھی) جنت میں ہیں اور ان کی بہن جنت میں ہے۔‘‘[1]
اگرچہ اس اثر کی سند میں قدرے ضعف ہے لیکن اس کے معانی معلوم و مشہور ہیں ، اس پاکیزہ خاندان کے ایسے فضائل و مناقب دوسری صحیح روایات سے ثابت ہیں کہ یہ خاندان عزت و شرافت اور بزرگی و نجابت کی کان اور جود و کرم کا منبع و سرچشمہ ہے جس کا حسب و نسب ستھرا، نتھرا، پاکیزہ، عمدہ، اعلیٰ، بزرگ و برتر اور شریف و نجیب ہے۔ جس نے سیادت و قیادت کی چوٹیوں کو جا چھوا اور اس سے کم رتبہ پر کبھی راضی نہ ہوا۔
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صنادید عرب آل بیت اطہار کی اس بزرگی و برتری سے واقف بھی تھے اور اس کے معترف بھی تھے چنانچہ’’ایک دن حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے اپنے ہم مجلسوں سے دریافت فرمایا: ماں ، باپ، نانا نانی، چچا پھوپھی اور خالہ ماموں کے اعتبار سے سب سے زیادہ بزرگ کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: امیر المومنین! (اس بات کو) آپ (ہم سے) زیادہ جانتے ہیں ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا (جو اس وقت مجلس میں موجود تھے) ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا: ’’یہ ہیں ۔‘‘[2]
یہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا حد درجہ انصاف ہے کہ وہ کس فراخ دلی، صدق و اخلاص اور یقین و اذعان کے ساتھ آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس چشم و چراغ کی ایسی بے نظیر فضیلت و منقبت کا اظہار اور اقرار فرما رہے ہیں ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت، ذریت و ازواج اور موالی کے ساتھ اہل ایمان و اسلام ہمیشہ تعظیم و اجلال کا سلوک کرتے رہے، چنانچہ جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں : ’’جناب رسول اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال رکھو۔‘‘[3]
یعنی جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آل بیت سے محبت کرے اور جو دنیا و آخرت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تقرب چاہتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل، ذریت اور ازواج رضی اللہ عنہن کا اکرام و اجلال کرے، ان کی خیر خیریت معلوم کرے، انہیں راضی اور خوش کرنے میں جتن کرے، ان سے تعاون کرے، ان کے حقوق ادا کرے اور ان کے اُن اعلیٰ اخلاق کو اپنائے جو ان کی سیرت و کردار کا جزو لاینفک تھے، جیسے علم و حلم، وفا و صفا، جود و کرم، جہد و تضحیہ، کتاب و سنت اور ان کی زبان سے تمسک، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا علی، سیّدہ فاطمہ، حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اور ان کے سچے جاں نثاروں کی زبان ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، سیرت، منہج اور تعلیمات کے سچے پیروکار تھے۔
|