نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔‘‘[1]
ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’حسن مجھ سے ہے اور حسین علی سے ہے۔‘‘[2]
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض اصحاب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں اور حسین کہ ہم تم لوگوں سے ہیں اور تم لوگ ہم میں سے ہو۔‘‘[3]
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو حسن اور حسین رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر چڑھ گئے۔ جب گھر والوں نے انہیں ایسا کرنے سے منع کرنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ سے فرما دیا کہ ’’انہیں رہنے دو۔‘‘ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی گود میں بٹھایا پھر ارشاد فرمایا: ’’جسے مجھ سے محبت ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ان دونوں سے محبت کرے۔‘‘[4]
یہ نص اس بات کی تاکید بیان کرتی ہے کہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سے محبت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل ہے جو کبھی اپنے منہ سے خواہش نفس سے بات نہیں نکالتے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے محبت فرمانا اس بات کو فرض کر دیتا ہے کہ ان دونوں حضرات سے بھی محبت کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان آلِ بیت ذریت اور ازواج سے بھی محبت کرے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت تھی۔ لہٰذا جو ان لوگوں میں سے کسی ایک سے بھی بغض رکھے گا جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت تھی وہ اپنے دعوائے محبت میں جھوٹا ہے۔
بھلا ایسا شخص اپنے دعوائے محبت میں سچا ہو بھی کیسے سکتا ہے جو اس ذات گرامی سے بغض رکھے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگوں سے زیادہ محبت تھی، اور وہ ام المومنین زوجہ رسول سیّدہ عائشہ صدیقہ بنت صدیق اکبر رضی اللہ عنہما ہیں ۔
|