پاک کرنا اور تمھارے گھروں میں اللہ کی جن آیات اور دانائی کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یاد کرو۔ بے شک اللہ ہمیشہ سے نہایت باریک بین، پوری خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
اس کی دوسری دلیل وہ روایت ہے جس کو ملیکہ نے روایت کیا ہے کہ خالد بن سعید رضی اللہ عنہ نے سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک گائے بھیجی۔ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہہ کر وہ گائے واپس کر دی: ’’ہم آلِ محمد صدقہ (کا مال) نہیں کھاتے۔‘‘[1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اے اللہ! آلِ محمد کی روزی قابل گزران ہی بنانا۔‘‘[2]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
’’یہ بات معلوم ہے کہ یہ دعا ’’مستجاب‘‘ تھی اور یہ بھی معلوم ہے کہ اس دعا سے بنی ہاشم اور بنی مطلب کے ہر شخص کو حصہ نصیب نہیں ہوا کیونکہ ان میں اصحاب ثروت و دولت بھی تھے اور آج تک ہیں ۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اور ذریت طیبہ کی روزی بلاشبہ ’’قُوت‘‘ (بقدر سدِّّ رمق یعنی قابل گزران) تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو جو اموال بھی حاصل ہوتے تھے وہ ان کو صدقہ کردیا کرتی تھیں اور صرف سد رمق کے بقدر مال اپنے پاس رکھ چھوڑتی تھیں ۔ ایک مرتبہ سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ڈھیر سارا مال آیا تو آپ نے وہ سارے کا سارا مال ایک ہی نشست میں تقسیم کر دیا۔ جب سارا مال تقسیم ہو چکا تو باندی نے شکوہ کے انداز میں عرض کیا کہ ایک درہم ہی رکھ لیتیں کہ جس سے ہم گوشت خرید لیتے۔ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اگر تم یاد دلا دیتیں تو (شاید) میں ایسا کر (بھی) لیتی۔‘‘
علماء نے اس بات پر کہ یہ دعا ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اور ذریت طیبہ رضی اللہ عنہم کے حق میں قبول ہوئی، صحیحین میں مروی سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے: سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
’’آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن لگاتار گندم کی روٹی سے پیٹ نہیں بھرا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رب تعالیٰ سے جا ملے۔‘‘[3]
علماء کہتے ہیں :
’’یہ بات معلوم ہے کہ سیّدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ان کلمات میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، ان کی اولاد اور
|