حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاصیہ کا نام بدل کر جمیلہ رکھ دیا تھا۔[1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’اللہ کے نزدیک سب سے برا نام اس شخص کا ہے جس نے اپنا نام ’’ملک الاملاک‘‘ (شاہِ شاہ ہاں ) رکھا ہو۔‘‘[2]
محمد بن عمرو بن عطاء کہتے ہیں : میں زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے ساتھ میری بہن تھیں انہوں نے مجھ سے میری بہن کا نام پوچھا، میں نے بتلایا کہ اس کا نام برہ ہے، تو انہوں نے کہا: یہ نام بدل دو کہ کیونکہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نام برہ تھا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا تو ان کا نام بدل کر زینب رکھ دیا۔[3]
یہ نصوص بتاتی ہیں کہ ایک نام کی جگہ اس سے زیادہ اچھا نام بھی رکھ سکتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ جس نے برا نام رکھا ہو یا وہ نام مسلمانوں کے مناسب نہ ہو اس کے پاس اس برے نام سے چھٹکارا پانے اور سنت نبویہ کی پیروی کرنے کے لیے اس نام کے نہ بدلنے کا کوئی عذر نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے دی جانے والی قربانی کا نام ’’عقیقہ‘‘ رکھنا بھی پسند نہ تھا۔ کیونکہ اس میں عقوق (نافرمانی) کا معنی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے ’’عقوق‘‘ پسند نہیں ۔‘‘ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیقہ نام کو ناپسند فرمایا اور ارشاد فرمایا: ’’جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کر لے۔‘‘[4]
پیدا ہونے والے بچے کی بابت چند دوسری سنتیں بھی ہیں ، حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں : میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں جناب حسین رضی اللہ عنہ کے پیدا ہونے پر ان کے کانوں میں نماز والی اذان کہی۔[5]
|