٭ سر حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ کی تعیین، اس کے مشاہد و مزارات کی کثرت کا سبب اور جائے تدفین کی بات اختلاف
٭ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے قتل کی بابت امت مسلمہ کے موقف کا خلاصہ۔
٭ یزید کی بیعت اور اس کی وجوہ جواز کی طرف اشارہ اور اس بارے میں شوریٰ کے اثرات۔
٭ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی شہادت پر یزید کا موقف اور اس حادثۂ فاجعہ کے بعد آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس کا حسن سلوک۔
٭ یزید کا دفاع کیے بغیر ان نصوص کا بیان جو اس پورے واقعہ کی بے لاگ منظر کشی کرتی ہیں ، کیونکہ ایک تو یزید صحابی رسول نہ تھا، دوسرے اگرچہ اس نے جنگ کا آغاز خود نہ کیا تھا لیکن یزیدی افواج کے بعض لوگوں نے ان خروج کرنے والوں پر عقاب و عتاب کرنے میں بے جا زیادتی سے کام لیا تھا۔ کیونکہ انہوں نے مصلحت کیشی کی حدود سے تجاوز کیا تھا۔
ان نصوص کو لانے کی بنیادی غرض یہ ہے کہ رسالت نبوی کے مقاصد کو دنیا کے سامنے مشوّش کر کے پیش کرنے والے خود غرضوں اور تشکیکی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر فتنوں میں اوندھے منہ جا گرنے والوں کے ہاتھ میں اپنی تضلیلی و تشکیکی مہم کے لیے کوئی وجہ جواز باقی نہ رہے۔
٭ اس سب کے بعد ہم نے ان منکوس العقل لوگوں کے وسائل اور سرگرمیوں کو بھی عالم آشکارا اور الم نشرح کیا ہے جو ان لوگوں کے خلاف مصروفِ عمل اور سرگرم ہیں جو امت مسلمہ کو فتنہ پروروں کے دامِ ہم رنگِ زمین سے آگاہ کرتے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف ان لوگوں نے ’’فتنوں سے اجتناب‘‘ کے نام پر اوہام و خرافات کی دکان بھی چمکا رکھی ہے، لیکن بظاہر یہ کلمہ حق ہے مگر اس سے مراد باطل ہے اور اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ یہ فتنہ اب ایک مجسم صورت اختیار کر چکا ہے جس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں :
٭… حق سے عدمِ معرفت۔
٭… سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو پیش آنے والے حقیقی واقعات سے بے خبری۔
٭… اس ہدایت یافتہ اور رب کے برگزیدہ طبقہ کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے والوں اور طعن صحابہ رضی اللہ عنہم کے اندھیرے گڑھے میں اوندھے منہ گرنے والوں کو برسر بازار رسوا اور بے نقاب کرنے سے دست کش ہونا۔
٭… بالخصوص جب اس نام نہاد حق پرست اور حق کے علم بردار طبقہ کو ہم دو حصوں میں تقسیم دیکھتے ہیں کہ بعض تو ان میں سے امت مسلمہ کی وحدت و حمایت اور زنادقہ سے اس کی حفاظت و صیانت میں مصروف کار نظر
|