Maktaba Wahhabi

475 - 512
دعوت کو ٹھکرایا تھا اور اپنی قوم سے نور حق کو روکنے کا عزم کر رکھا تھا) مسلمانوں کو تیار کیا۔ لوگ آپ کی اس محبوب دعوت پر لبیک کہتے ہوئے قائدین جہاد، خالد، ابوعبیدہ، یزید، عمرو اور شرحبیل وغیرہم رضی اللہ عنہم کے پرچم تلے آگئے، جنہیں تجربہ کار، ماہر اور عجیب وغریب جنگی صلاحیت کے مالک خلیفہ نے منتخب فرمایا تھا۔ ان ظروف وحالات نے ان صلاحیتوں کو جلا بخشی جو امت کو مطلوب تھیں اور اس طرف توجہ کی متقاضی تھیں۔ آپ نے قائدین کو منتخب فرمایا اور انہیں اس سلسلہ میں تعلیمات اور رہنمائی بہم پہنچائی۔ انہوں نے شام و عراق کو انتہائی قلیل مدت میں اور انتہائی کم خرچ میں فتح کر لیا۔ [1] مفتوحہ اقوام کے ساتھ عدل وانصاف اور نرمی کا برتاؤ: ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خارجہ پالیسی مفتوحہ ممالک میں عدل و انصاف کا پرچم لہرانے اور لوگوں کے درمیان امن و استقرار اور طمانیت پھیلانے پر قائم تھی تاکہ لوگ حق و باطل کی حکومت کے مابین فرق محسوس کر سکیں بلکہ یہ محسوس اور گمان نہ کریں کہ ایک ظالم کے جانے کے بعد ظلم و جبروت میں اس سے بڑھ کر یا اس جیسا دوسرا ظالم آن پہنچا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے قائدین کو لوگوں کے ساتھ عدل ورحمت اور احسان کا برتاؤ کرنے کی وصیت فرمائی۔ مغلوب رأفت ورحمت کا محتاج ہوتا ہے۔ ایسی چیزوں سے اجتناب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی جنگی حمیت کو برانگیختہ کرنے کا سبب بن سکتی ہوں۔ مسلم فاتحین نے انسان اور انسانی وسائل دونوں کی حفاظت کی۔ مفتوحہ قاوام نے بلند ذوق اور سچی انسانیت میں نئی مخلوق کا مشاہدہ کیا، میزان شریعت مغلوبہ اقوام میں عدل وانصاف کے ساتھ قائم ہوا، نور اسلام پھیلا، لوگوں کے دل اس کے لیے تیار ہوئے اور اقوام نے اس دین کو قبول کرنے اور اس کے پرچم تلے شامل ہونے میں سبقت کی۔ روم وفارس کی عجمی افواج کی حالت یہ تھی کہ جب وہ کسی سرزمین پر قدم رکھتے تو اس کو پراگندہ کر ڈالتے، رعب وخوف پھیلاتے اور عزتیں لوٹتے، جس کی تباہی و بربادی کا لوگ تجربہ کر چکے تھے اور ان کی خوفناک داستانیں نسل در نسل منتقل ہوتی آرہی تھیں۔ جب اسلام آیا اور اسلامی افواج ان ممالک میں داخل ہوئیں تو لوگوں نے دیکھا کہ وہ ان کے سروں پر عدل وانصاف کی چادر پھیلا رہے ہیں اور ظلم وطغیان نے جس انسانیت کو ان سے چھین لیا تھا اس کو واپس لا رہے ہیں۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ اس سیاست وپالیسی کے انتہائی حریص رہے، جہاں ذرا بھی کوتاہی اور کجی دیکھی فوراً اس کی اصلاح کی۔ بیہقی کی روایت ہے کہ روم و فارس جب اپنے کسی دشمن پر غالب آتے تو ہر چیز کو حلال سمجھتے اور انسانوں کے سر اپنے بادشاہوں کی خدمت میں فتح کی بشارت اور اعلان فخر کے طور پر پیش کرتے۔ رومیوں کے ساتھ برسر پیکار مسلم قائدین نے بہتر سمجھا کہ ان کے ساتھ بھی ویسا ہی معاملہ کیا جائے جیسا یہ کرتے آئے ہیں۔ لہٰذا عمرو بن عاص اور شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہما نے شام کے ایک بطریق (جرنیل) بنان کا سر عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے
Flag Counter