عباد بن بشر رضی اللہ عنہم ۔[1] ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں تہجد کی نماز ادا کی۔ آپ نے عباد بن بشر کی آواز سنی، فرمایا: اے عائشہ! کیا یہ عباد بن بشر کی آواز ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: اے اللہ اسے بخش دے۔[2] آپ معرکہ یمامہ میں شہید ہوئے۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: جب ہم معرکہ بزاخہ سے فارغ ہوئے تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا: اے ابوسعید! آج رات میں نے خواب دیکھا کہ میرے لیے آسمان کھل گیا ہے اور پھر مجھ پر بند کر دیا گیا ہے۔ ان شاء اللہ اس سے اشارہ میری شہادت کی طرف ہے۔ میں نے کہا: واللہ آپ نے خیر دیکھی ہے۔[3] معرکہ یمامہ میں آپ کے مواقف نمایاں رہے ہیں۔ آپ نے ایک بلند جگہ پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے پکارا: میں عباد بن بشر ہوں، اے انصار، اے انصار! میرے پاس آؤ، میرے پاس آؤ۔ سب کے سب انصار ان کی طرف لبیک لبیک پکارتے ہوئے دوڑ پڑے…… عباد رضی اللہ عنہ نے اپنی تلوار کی نیام توڑ دی اور انصار نے بھی اپنی تلواروں کی نیامیں توڑ دیں۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پیچھے آؤ اور سخت حملہ کرو، آپ لوگوں کو لے کر نکلے اور بنو حنیفہ کو شکست دے کر باغ تک ان کو دوڑایا اور اس میں بند کر دیا۔[4] جب مسلمان باغ کا دروازہ کھولنے میں کامیاب ہو گئے تو آپ نے اپنی زرہ دروازے پر پھینک دی اور تلوار کھینچ کر اندر گھسے اور ان سے قتال کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر لیا۔ اس وقت آپ کی عمر پینتالیس (۴۵) سال تھی۔ آپ کے جسم پر اس قدر زخم آئے کہ پہچانے نہیں جا رہے تھے۔ ایک علامت سے آپ کو پہچانا گیا۔[5] آپ کے مواقف معرکہ یمامہ میں اس قدر مشہور ہوئے کہ اسے ضرب المثل کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔[6] بنو حنیفہ آپ کو نہ بھولے۔ جب بھی اپنے کسی فرد کا زخم دیکھتے تو کہتے: یہ تجربہ کار عباد بن بشر کے لگائے زخموں کی طرح ہے۔[7] حروب ارتداد میں انصار کا عظیم مؤقف اور بے مثال اقدام رہا ہے خاص کر معرکۂ یمامہ میں اور اس جنگ میں انصار کے اقدام و صبر کی شہادت مجاعہ بن مرارہ حنفی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس دی۔ کہا: اے خلیفۂ رسول! میں |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |