طرف روانہ کیا۔ میرے ساتھ خالد رضی اللہ عنہ کو ایک خط لکھا، جس میں تھا: ’’اما بعد! تمہارے پیغام رساں کے ذریعہ سے تمہارا خط مجھے ملا، جس میں معرکہ بزاخہ میں اللہ کی فتح ونصرت کا تم نے ذکر کیا ہے اور اسد وغطفان کے ساتھ جو معاملہ تم نے کیا ہے وہ مذکور ہے۔ اور تم نے تحریر کیا ہے کہ میں یمامہ کی طرف رخ کر رہا ہوں۔ تمہیں میری یہ وصیت ہے: اللہ وحدہ لا شریک لہ سے تقویٰ اختیار کرو اور تمہارے ساتھ جو مسلمان ہیں ان کے ساتھ نرمی برتو، ان کے ساتھ باپ کی طرح پیش آؤ، اے خالد خبردار! بنی مغیرہ کی نخوت وغرور سے بچنا، میں نے تمہارے متعلق ان کی بات نہیں مانی ہے، جن کی بات میں کبھی نہیں ٹالتا۔ لہٰذا تم جب بنو حنیفہ سے مقابلہ میں اترو تو ہوشیار رہنا، یاد رکھو! بنو حنیفہ کی طرح اب تک کسی سے تمہارا سابقہ نہیں پڑا ہے۔ وہ سب کے سب تمہارے خلاف ہیں اور ان کا ملک بڑا وسیع ہے لہٰذا جب وہاں پہنچو تو بذات خود فوج کی کمان سنبھالو۔ میمنہ پر ایک شخص کو اور میسرہ پر ایک شخص کو[1] اور شہسواروں پر ایک کو مقرر کرو۔ اکابرین صحابہ اور مہاجرین و انصار میں سے جو تمہارے ساتھ ہیں ان سے برابر مشورہ لیتے رہو اور ان کے فضل ومقام کو پہچانو۔ پوری تیاری کے ساتھ میدان جنگ میں جب دشمن صف بستہ ہوں ان پر ٹوٹ پڑو۔ تیر کے مقابلہ میں تیر، نیزے کے مقابلہ میں نیزہ، تلوار کے مقابلہ میں تلوار، ان کے قیدیوں کو تلواروں پر اٹھا لو۔[2] قتل کے ذریعہ سے ان میں خوف و ہراس پیدا کرو، ان کو آگ میں جھونک دو، خبردار! میری حکم عدولی نہ کرنا۔ والسلام علیک‘‘[3] جب یہ خط خالد رضی اللہ عنہ کو ملا تو آپ نے اس کو پڑھا اور فرمایا: ہم نے سن لیا اور ہم اس کی مکمل فرمانبرداری کریں گے۔[4] خالد رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو اپنے ساتھ تیار کیا، اور بنو حنیفہ سے قتال کے لیے روانہ ہو گئے۔ انصار پر ثابت بن قیس بن شماس امیر مقرر تھے۔ مرتدین میں سے جس سے راستہ میں واسطہ پڑتا اس کو عبرتناک سزا دیتے۔ ادھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیچھے سے خالد رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے لیے ایک بہت بڑی فوج بہترین اسلحہ سے لیس روانہ کی، تاکہ لشکر خالد پر کوئی پیچھے سے حملہ آور نہ ہو سکے۔ خالد رضی اللہ عنہ کا گذر یمامہ کے راستے میں بہت سے بدو قبائل سے ہوا جو مرتد ہو چکے تھے، ان سے جنگ کر کے انہیں اسلام کی طرف واپس لائے۔ راستہ میں سجاح کی بچی کھچی فوج ملی، ان کی خبر لی، انہیں قتل کیا اور عبرتناک سزائیں دیں، پھر یمامہ پر حملہ آور ہوئے۔[5] |
Book Name | سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | شمیم احمد خلییل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 512 |
Introduction |