Maktaba Wahhabi

223 - 512
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے تمہاری امارت کی ضرورت نہیں[1] جو روزینہ آپ لوگوں نے میرے لیے مقرر کیا ہے وہ میرے لیے اور میرے اہل وعیال کے لیے کافی نہیں۔ فرمایا: ہم اضافہ کریں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تین سو دینار اور ایک بکری مکمل چاہیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تو نہیں ہو سکتا۔ اتنے میں علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا: مکمل کر دیجیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کی یہ رائے ہے؟ فرمایا: ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے ایسا ہی کر دیا۔[2] ابوبکر رضی اللہ عنہ اٹھے اور منبر پر تشریف لائے اور لوگ جمع ہو گئے اور آپ نے لوگوں سے خطاب فرمایا: ’’لوگو! میرا روزینہ ڈھائی سو دینار اور ایک بکری پیٹ، سر اور پائے کے علاوہ تھا لیکن عمرو علی( رضی اللہ عنہما ) نے تین سو دینار اور مکمل بکری مقرر کر دی ہے، کیا آپ لوگ اس سے راضی ہیں؟‘‘ مہاجرین نے کہا: ہاں، ہم راضی ہیں۔[3] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ولایت اور امانت حکومت کو اس طرح سمجھا تھا کہ اپنے خلیفہ کے لیے روزینہ مقرر کر کے اس کو تجارت سے بے نیاز کر دیا، کیونکہ اب وہ امت کی خدمت میں لگ گیا، وقت، محنت اور فکر کو پوری طرح اس میں لگائے اور یہاں سے صحابہ کرام نے اسلام میں ایک نرالا اصول مقرر کیا جو امت کے مال عام کو حاکم کے دسترس اور قبضے سے الگ کرتا ہے۔ یہ مفہوم اہل یورپ نے ابھی قریبی زمانے میں سمجھا ہے۔ ان کے یہاں قیصریت کا پرچم پورے آب وتاب کے ساتھ لہراتا رہا اور طویل زمانہ تک لوگوں سے اس کی خاطر برسر پیکار رہا، حکومت کے مال عام کے حاکم کے قبضے و دسترس میں ہونے سے متعلق بہتر تعبیر جس کا ہمیں پتا چلا ہے وہ پندرھویں لویس کا یہ مقولہ ہے: ’’میں حکومت ہوں اور حکومت میں ہوں۔‘‘ لویس معروف تاجر تھا وہ اپنی قوم کے لیے خوراک کی تجارت کرتا اور قوم بھوک سے پیچ و تاب کھاتی، پھر بھی کوئی اس کو عار نہیں سمجھتا… کیا اس کی حیثیت جڑ اور قوم کی حیثیت شاخ کی نہیں ہے؟[4] ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے مقابلہ میں انسانیت آج کہاں ہے؟ حکومت کے خزانے ایسے افراد کے ہاتھ میں ہیں
Flag Counter