Maktaba Wahhabi

63 - 523
ہیں اور چہرہ غبار آلود۔ وہ آسمان کی طرف دونوں ہاتھ پھیلائے یارب، یارب کی پکار لگا رہا ہے، درآں حالیکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور وہ بذات خود حرام سے پروردہ، تو اس کی دعا کس طرح قبول ہو گی؟‘‘[1] یہ آدمی عاجزی، مسکینی، ضرورت اور فاقہ کی تمام صفات ہاتھ میں لے کر اﷲ کے حضور پیش ہوا، اس کی حالت اتنی خستہ اور اس کی ضرورت اتنی شدید تھی کہ اس کا مرثیہ پڑھنے کو دل کرتا ہے لیکن اس نے اپنے رب کے ساتھ اپنا تعلق منقطع کر لیا تھا اور اپنے آپ کو اﷲ کے فضل اور مدد سے محروم کر ڈالا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قطع تعلقی قبولیتِ دعا کے آڑے آگئی، کیونکہ اس نے کھانے، پینے اور پہننے میں حرام استعمال کیا۔ جب آدمی کا اﷲ سے تعلق منقطع ہوجائے، اس کی دعا مردود ہوجائے، اس کے درمیان اور رحمتِ الٰہی کے درمیان پردہ حائل ہوجائے تو پھر اس کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ اس لیے سلف صالحین حرام سے حد درجہ خوف کھایا کرتے تھے اور اس سے ڈرانے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے تھے، حتی کہ کسی نے کہا ہے: ’’اگر تم ستون کی طرح کھڑے ہو کر عبادت بھی کر لو تو تمھیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جب تک تم یہ نہ دیکھو کہ تیرے پیٹ میں کیا داخل ہورہا ہے؟[2] صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایک غلام تھا، وہ ایک دن ان کے پاس کوئی چیز لے کر آیا، انھوں نے اس سے کچھ کھا لیا۔ غلام نے کہا: کیا آپ کو پتہ ہے یہ کیا ہے؟ آپ نے پوچھا: کیا ہے؟ اس نے کہا: میں نے جاہلیت میں ایک انسان کے لیے کہانت کی، حالانکہ مجھے اچھی طرح کہانت نہیں آتی مگر میں نے اس کو دھوکا دیا، وہ آج مجھے ملا اور اس نے مجھے یہ کھانا دیا جس سے آپ نے کھایا ہے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ پیٹ میں ڈالا اور پیٹ میں جو کچھ تھا قَے کر دیا۔‘‘[3]
Flag Counter