Maktaba Wahhabi

218 - 523
لہٰذا مسلمانوں کے مابین تعلیم کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ کہیں وہ چپکے سے اپنی شناخت نہ کھودے، اور تعلیم کو اس قابل بنانا کہ وہ مفید علم مہیا کرنے کے لیے، جو عمل صالح کا سبب بن سکے، حکمت عملی پیدا کر سکے، جس میں دوسروں کی قابل نفرت تقلید اور دست نگری کا عنصر ہو نہ مفید علوم کی اہمیت سے انکار کا کوئی پہلو ہی ہو، بلکہ اس کا قوموں کی زندگی میں شرعی اور دینی حیثیت سے ایک بنیادی اثر ہو کہ آدمی اس کے ذریعے اپنے رب کی پہچان حاصل کر سکے، اپنے فرائض اور واجبات جان سکے۔ اس تعلیمی حکمت عملی میں کوئی ایسا عنصر شامل نہ ہو جو دینی علوم کی اہمیت گرائے یا انھیں بوجھ محسوس کرے، کیونکہ اس کی وجہ سے معاشرے کمزور ہوجاتے ہیں۔ ان معلومات کے ذریعے کنٹرول کرنے والے عہد اور علمی و ثقافتی روابط کے زمانے میں جو ماحول اور خاندانوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیںاور ہر طرف عام اصلاح کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ فکری امن کے تمام نشانات مٹ جائیں گے۔ جہاں تک میڈیا کی سوچ کا تعلق ہے تو اﷲ کے بندو! یہ ہم عصر معاشروں کی روح رواں اور بنیادی رکن ہے، اس کی نگاہ سے لوگ دیکھتے ہیں اور اسی کے ساتھ مغرب زدہ ہورہے ہیں، یہیں سے مسلمانوں کے مسائل پیش کیے جاتے ہیں اور ان کی حمایت کی جاتی ہے، اور یہیں سے ان کے حقائق پر پانی پھیر دیا جاتا ہے اور انھیں کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس ابلاغ کی سوچ کے ذریعے ہی سنجیدہ اور مثالی معاشرے اور لاابالی اور منحرف معاشرے پہچانے جاتے ہیں۔ جتنا زیادہ ابلاغ کی سوچ میں اعتدال اور کمال ہوگا اتنا ہی کمال اور اعتدال میڈیا کے امن کی بنیاد میں ہوگا اور ساری قوم کی آنکھوں میں امن کی ٹھنڈک۔ اور جس قدر زیادہ اس میں بگاڑ اور خرابی ہوگی اتنی ہی امت شدید بیمار ہوگی اور ہلاکت خیزیوں کے میدان میں سرگرداں رہے گی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم سب کو چاہیے کہ امن کی حقیقت کا وسعت نظری سے پر مطالعہ کریں، اور امن کی منزل تک پہنچانے والا مختصر ترین راستہ اپنائیں، بلکہ اگر ہم یہ کہیں تو غیر مفید نہیں ہوگا کہ تمام مسلمانوں کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ فکری امن کی اسلامائزیشن کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، کیونکہ اسلام ہی سلامتی کا دین ہے : { وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ } [آل عمران: ۸۵]
Flag Counter