Maktaba Wahhabi

341 - 692
((إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ لِلنَّاسِ فَلْیُخَفِّفْ،فَإِنَّ فِیھِمُ الضَّعِیفَ وَالسَّقِیمَ وَالْکَبِیرَ،وَإِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ لِنَفْسِہِ فَلْیُطَوِّلْ مَا شَائَ)) ’’جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے،اس لیے کہ ان میں کمزور،بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں،ہاں جب اکیلا پڑھے تو جتنی چاہے طویل کرے۔‘‘[1] امام پہلی رکعت دوسری رکعت کی بہ نسبت طویل پڑھائے،ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی رکعت دوسری رکعت کی بہ نسبت طویل پڑھتے تھے۔[2] 14: مقتدیوں کے ہاں ناپسندیدہ شخص کی امامت مکروہ ہے:اگر لوگ کسی شخص کو ناپسند کرتے ہوں تو وہ شخص ان کی امامت نہ کرائے۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’ثَلَاثَۃٌ لَّا تَرْتَفِعُ صَلَاتُھُمْ فَوْقَ رُؤُوسِھِمْ شِبْرًا:رَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَّھُمْ لَہُ کَارِھُونَ،وَامْرَأَۃٌ بَاتَتْ وَزَوْجُھَا عَلَیْھَا سَاخِطٌ،وَأَخَوَانِ مُتَصَارِمَانِ‘ ’’تین آدمیوں کی نماز ایک بالشت کے قدر بھی ان کے سروں کے اوپر(قبولیت کے لیے)نہیں اٹھتی،ایک وہ جو کسی قوم کی امامت کراتا ہے اور وہ اسے ناپسند کرتے ہیں اور وہ عورت جس پر اس کا خاوند ساری رات ناراض رہا اور وہ دو بھائی جو آپس میں قطع تعلق کر چکے ہیں۔‘‘[3] 15: امام کے قریب کون کھڑا ہوگا:یہ امر مستحب ہے کہ امام کے قریب معمر اور بزرگ اہل علم وفضل کھڑے ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’لِیَلِنِي مِنْکُمْ أُولُوا الْأَحْلَامِ وَالنُّھٰی‘ ’’تم میں صاحب عقل و دانش وفراست میرے قریب کھڑے ہوا کریں۔‘‘[4] 16: سلام کے بعد مقتدیوں کی طرف منہ کرنا:یہ بھی مستحب ہے کہ امام سلام کے بعد دائیں(یا بائیں)طرف سے مڑے اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اسی طرح تھا۔حضرت ہلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:’کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَؤُمُّنَا فَیَنْصَرِفُ عَلٰی جَانِبَیْہِ جَمِیعًا عَلٰی یَمِینِہِ وَعَلٰی شِمَالِہِ‘ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے امام ہوتے تھے اور کبھی دائیں طرف سے(ہماری طرف)پھرتے اور کبھی
Flag Counter