Maktaba Wahhabi

200 - 692
الفاظ میں حسنِ ترتیب ملحوظ رکھے،درست بات کہے،نیز زیادہ بولنے،خوش طبعی اور تمسخر کرنے سے احتراز کرے۔اپنے خاندان،کاروبار اور اپنی اولاد،تالیفات یا کسی بھی کام پر فخریہ گفتگو نہ کرے۔ اگر دوسرا بات کر رہا ہے تو توجہ سے اس کی بات سننے میں خودپسندی کا مظاہرہ نہ کرے،اس کے سلسلۂ گفتگو کو قطع نہ کرے اور یہ بھی نہ کہے کہ دوبارہ سناؤ کیونکہ اس سے متکلم کی طبیعت پر برا اثر پڑتا ہے۔ ان باتوں کا التزام واہتمام مسلمان دو و جہ سے کرتا ہے: ایک یہ کہ اس کی کسی عادت یا عمل سے کسی بھائی کو تکلیف نہ پہنچے کیونکہ مسلمان کو ایذا دینا حرام ہے۔ حدیث میں ہے:’اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِّسَانِہِ وَیَدِہِ‘ ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ [1] دوسری وجہ یہ کہ اس طرح وہ ساتھیوں کی محبت اور الفت حاصل کرے گاکیونکہ شارع نے باہمی محبت و الفت کا حکم دیا ہے اور اس کی ترغیب دی ہے۔[2] 5: کسی وجہ سے راستہ میں بیٹھنا پڑے تو اس صورتِ حال میں درج ذیل باتوں کو اپنائے: ٭ نگاہ نیچی رکھے اور راستہ میں گزرنے والی مومن عورتوں یا اپنے گھر کے دروازہ میں کھڑی عورت یا کسی ضرورت کے تحت مکان کی چھت پر جانے والی یا کھڑکی سے جھانکنے والی پر نظر بازی نہ کرے،اسی طرح کسی بھی شخص کو حسد کی نظر سے نہ دیکھے اورنہ ہی کسی کو اپنے سے حقیر گردانے۔ ٭ راستہ سے گزرنے والوں کو کسی انداز میں ایذا نہ دے،سب وشتم،عیب جوئی اور اعتراض بازی سے اجتناب کرے۔گالی گلوچ،مار کٹائی اور چھینا جھپٹی جیسی قبیح حرکتوں سے لوگوں کی آمدروفت بند نہ کر دے۔ ٭ پاس سے گزرنے والے سلام کہیں تو ان کا جواب دے کیونکہ سلام کا جواب دینا واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا﴾ ’’جب تمھیں سلام کہا جائے تو اس سے بہتر سلام کہو یا اسی کو لوٹا دو۔‘‘ [3] ٭ اگراس کے سامنے معروف(نیکی)پر عمل متروک ہو جائے یا اسے معمولی سمجھا جانے لگے تو اس پرامربالمعروف لازم ہو جاتا ہے اور یہ اس کی ذمہ داری ہے جس سے وہ صرف اسی صورت ہی عہدہ برآ ہو سکتا ہے کہ وہ خود یہ
Flag Counter