Maktaba Wahhabi

153 - 692
’’کوئی اولاد اپنے والد کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتی،الاَّ یہ کہ اسے غلام پائے اور خرید کر آزاد کردے۔‘‘[1] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:اللہ کو کون سا عمل محبوب ہے؟ فرمایا:’’والدین کی فرماں برداری‘‘ میں نے کہا:پھر کون سا؟ آپ نے جواب دیا:’’اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔‘‘ [2] ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور جہاد میں شریک ہونے کی اجازت چاہی،آپ نے پوچھا: ((أَحَيٌّ وَّالِدَاکَ؟ قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:فَفِیہِمَا فَجَاہِدْ)) ’’کیا تیرے والدین زندہ ہیں ؟‘‘ اس نے کہا:ہاں،آپ نے فرمایا:’’تو انھیں میں جہاد کر(ان کی خدمت کر)۔‘‘ [3] ایک انصاری آپ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی:کیا میرے والدین کی موت کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک میں سے کوئی چیز باقی ہے؟ آپ نے فرمایا: ((نَعَمْ،اَلصَّلَاۃُ عَلَیْہِمَا،وَالاِسْتِغْفَارُ لَہُمَا،وَ إِنْفَاذُ عَہْدِہِمَا مِنْ بَعْدِہِمَا،وَ صِلَۃُ الرَّحِمِ الَّتِي لَا تُواصَلُ إِلَّا بِہِمَا،وَ إِکْرَامُ صَدِیقِہِمَا)) ’’ہاں،ان کی نمازِ جنازہ پڑھنا،ان کے حق میں رحم و کرم اور مغفرت و بخشش کی دعا کرنا،ان کے بعد ان کے کیے وعدے پورے کرنا،ان کی وجہ سے قائم رشتوں کو جوڑنا(ان سے صلہ رحمی کرنا)،ان کے دوستوں کی عزت کرنا،(والدین کی وفات کے بعد یہ باتیں ابھی تیرے ذمہ باقی ہیں)۔‘‘ [4] نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَۃَ الرَّجُلِ أَہْلَ وُدِّ أَبِیہِ بَعْدَ أَنْ یُّوَلِّيَ‘ ’’والد کے چلے جانے کے بعد اس کے ساتھ بہترین نیکیوں میں سے یہ بھی ہے کہ بیٹا اس کے دوستوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھے۔‘‘[5] جس طرح ایک مسلمان اللہ کی اطاعت اور اس کے حکم کی بجا آوری میں اپنے والدین کے حقوق کا اعتراف اور پھر ان کی ادائیگی کرتا ہے اسی طرح وہ درج ذیل آداب کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتا ہے: 1: ایک مسلمان والدین کی ہر بات میں فرماں برداری کرتا ہے۔بشرطیکہ اس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی نہ ہوتی ہو کیونکہ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
Flag Counter