اسے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اٹھایا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال کے اندر اندر ہوتا ہے کہ میرا اور اپنے والدین کا شکریہ ادا کر۔(تمھیں)میری طرف لوٹنا ہے۔‘‘ [1]
ایک شخص نے دریافت کیا:
((یَا رَسُولَ اللّٰہِ!مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ:أُمُّکَ،قَالَ:ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ أُمُّکَ،قَالَ:ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ أُمُّکَ،قَال:ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:ثُمَّ أَبُوکَ))
’’اے اللہ کے رسول!میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ نے فرمایا:’’تیری ماں۔‘‘ عرض کی:پھر اس کے بعد؟ فرمایا:’’تیری ماں۔‘‘ عرض کی:پھر اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا:’’تیری ماں ‘‘ کہا:پھر کون؟ آپ نے فرمایا:’’تیرا باپ۔‘‘[2]
فرمانِ نبوی ہے:’إِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ حَرَّمَ عَلَیْکُمْ عُقُوقَ الْأَمَّہَاتِ وَوَأْدَ الْبَنَاتِ وَ مَنْعًا وَّہَاتِ،وَ کَرِہَ لَکُمْ ثَلَاثًا:قِیلَ وَ قَالَ،وَ کَثْرَۃَ السُّؤَالِ،وَ إِضَاعَۃَ الْمَالِ‘
’’بے شک اللہ نے تم پر ماؤں کو ایذا دینا،بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا،کنجوسی کرنا اور بھیک مانگنا حرام قرار دیا ہے اور قیل و قال،سوالات کی کثرت اور مال ضائع کرنے کو ناپسند قرار دیا ہے۔‘‘ [3]
ایک مرتبہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:’أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِأَکْبَرِ الْکَبَائِرِ؟۔ثَلَاثًا۔قُلْنَا بَلٰی،یَا رَسُولَ اللّٰہِ!قَالَ:اَلإِْشْرَاکُ بِاللّٰہِ،وَ عُقُوقُ الْوَالِدَیْنِ،وَ کَانَ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ:أَلَا وَ قَوْلُ الزُّورِ وَ شَہَادَۃُ الزُّورِ،أَلَا وَ قَوْلُ الزُّورِ وَ شَہَادَۃُ الزُّورِ،فَمَا زَالَ یَقُولُہَا حَتّٰی(قَالَ أَبُوبَکْرَۃَ:)قُلْتُ:لَا یَسْکُتُ‘
’’کیا میں تمھیں بڑے گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ نہ بتاؤں ؟‘‘تین بار فرمایا،لوگوں نے عرض کی:کیوں نہیں اے اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا:’’(کسی کو)اللہ کا شریک بنانا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔‘‘ آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے:’’جھوٹی بات کہنا اور جھوٹی گواہی دینا۔‘‘ آپ بار بار یہی ’أَلَاوَقَوْلُ الزُّورِ وَشَھَادَۃُ الزُّورِ‘کہتے رہے۔یہاں تک کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ(دل میں)کہنے لگے:آپ خاموش نہیں ہوں گے۔‘‘ [4]
حدیثِ نبوی ہے:’لَا یَجْزِي وَلَدٌ وَّالِدًا إِلَّا أَنْ یَّجِدَہُ مَمْلُوکًا فَیَشْتَرِیَہُ فَیُعْتِقَہُ‘
|