وكلام الائمة ينظر في ربحه وخسرانه))
’’پس معلوم ہوا کہ جس شخص کا کوئی شیخ یا برادرِ صادق ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے افعال کتاب و سنت اور کلامِ ائمہ کے میزان پر تولتا رہے تاکہ اسے اپنے نفع و نقصان کا اندازہ ہو سکے۔‘‘
میرا حال یہ ہے کہ میں نے کسی کے ہاتھ پر بیعتِ ارادت نہیں کی اس لیے کہ مجھے قرآن و حدیث اور سلف صالح کی شروط کے موافق کوئی شیخ میسر نہیں آیا۔ میں بیعت کے وجوب کا قائل تو نہیں البتہ اسے مستحب ضرور جانتا ہوں۔ اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر شیخ صالح نہ ملے تو اخلاصِ نیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بکثرت درود شریف کے ساتھ قرآن و حدیث کا اتباع ہی کافی ہے۔ چنانچہ حدیثِ مالک بن انس رضی اللہ عنہ میں مرسلاً آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تَرَكْتُ فِيْكُمْ اَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابُ اللّٰهِ وَ سُنَّةُ رَسُوْلِهٖ (رواه في الموطا)
’’میں تم میں دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رکھو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ وہ ہیں کتاب اللہ اور سنت رسول۔‘‘
اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا مانع ضلالت ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ:
((مَنْ تَعَلّمَ كِتَابَ اللّٰهِ ثُمَّ اتَّبَعَ مَا فِيْهِ هَدَاهُ اللّٰهُ مِنَ الضَّلَالَةِ فِيْ الدُّنْيَا وَوَقَاهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سُوْءَ الْحِسَابِ))
’’جس نے کتاب اللہ کا علم حاصل کیا پھر اس کے مطابق عمل کیا۔ دنیا میں اسے اللہ تعالیٰ ضلالت سے بچا کر ہدایت سے نوازے گا اور قیامت کے دن برے حساب سے محفوظ رکھے گا۔‘‘
دوسری روایت اِس طرح ہے:
|