شَكَرَ فَكَانَ خَيْراً لَهُ، وَإِنْ أَصَابَتْهُ ضَرَّاءُ صَبَرَ فَكَانَ خيْراً لَهُ)) (مسلم)
’’مومن کا معاملہ تعجب انگیز ہے کہ اس کے تمام امور اس کے حق میں بہتر ہیں اور یہ صرف مومن ہی کی امتیازی شان ہے۔ اگر اسے مسرت نصیب ہو تو شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے تو صبر کا مظاہرہ کرتا ہے اور یہ بھی اس کے لیے بہتر ہے۔‘‘
مجھ پر یہ دونوں حالتیں گزر چکی ہیں۔ پہلی حالت ’’ضراء‘‘ کی تھی اب ’’سَرّاء‘‘ کی ہے۔ الحمدللہ کہ پہلی حالت میں شاکی نہیں بلکہ صابر تھا۔ اب جاحد (منکر، ناشکرا) نہیں بلکہ شاکر ہوں۔
کسبِ معاش:
جب میں معاش کی تلاش میں گھر سے نکل کر بھوپال گیا تو بالکل بے وسیلہ تھا۔ میں نے ملازمت کے ارادہ کے اظہار کے لیے مدارالمہام کو ایک رقعہ لکھا تھا اور پھر کرایہ کے مکان میں مقیم ہو گیا۔ مدارالمہام نے رئیسہ مرحومہ سے میری سفارش کی تو انہوں نے مجھے اپنے محکمہ آستانہ خاص میں ملازم رکھ لیا، اُمیدداری اور دربار داری کے لیے کچھ زیادہ کشمکش کا سامنا نہ کرنا پڑا۔
13 رجب 1271ھ کو یہاں آیا تھا اور اسی سال رمضان المبارک میں ملازم ہو گیا اور 1272ھ کے آخر تک ملازم رہا۔ پھر 18 محرم 1273ھ کو بعض اشخاص کی کوششوں سے برطرف ہو کر وطن روانہ ہو گیا۔ اور اسی اثناء میں 12 شوال کو کانپور وغیرہ میں غدر افواج ہو گیا تھا۔ میں اپنے غریب خانہ میں جا کر گوشہ نشین ہو گیا۔ 10 ذیقعدہ 1274ھ کو مرزا پور گیا تھا۔ وہاں سے رئیسہ مرحومہ کے طلب کرنے پر 3 محرم 1274ھ کو روانہ ہو کر 24 صفر کو عین موسمِ برسات میں آیا۔ اس مرتبہ کسی کی وساطت سے ملاقات میسر نہ آ سکی۔ 19 ربیع الاول کو ٹونک کی طرف روانہ ہو گیا۔ 11 ربیع الآخر کو وہاں
|