ترکِ دنیا کی خواہش:
جب کبھی کچھ حوصلہ ہوتا ہے تو دل ترکِ دنیا ہی کی طرف جھکتا ہے۔ دنیا کی حکومت اور دولت میں ترقی کا خیال کبھی دامن گیر نہیں ہوا۔ اگرچہ ترک و تجرید کی توفیق ابھی تک ہاتھ نہیں آ سکی
منم کہ روئے دلم در شکست کار خودست
وگرنہ گبرد مسلمان رواج می طلبند
لیکن میں اس ارادہ و نیت سے خوش ہوں کہ نیت تو بجائے خود نیک ہے۔ کیا عجب کہ یہ ارادہ کسی دن اللہ سبحانہ، و تعالیٰ کی مدد سے عملی صورت اختیار کر جائے۔ اللہ کی رحمت تو مجرد صالح نیت پر بھی اجر کی امید دلاتی ہے۔
نية المؤمن خير من عمله [1]
اللہ تعالیٰ نے بعض بندوں کو ان کے عمل کا انتظار کئے بغیر صرف ان کی نیک نیتوں کی بنا پر ہی بخش دیا۔ اس کی رحمتِ عامہ کو فقط بہانہ چاہیے:
غَفَرَتْ لِهٰؤُلَاءِ وَ لَا اُبَالِيْ
وہ جس طرح نکتہ گیر ہے۔ اسی طرح نکتہ نواز بھی ہے۔ لیکن بموجب نصِ حدیثِ صحیح اس کی نکتہ نوازی اس کی نکتہ گیری پر سابق ہے۔ دیکھو ’’قہار‘‘ صفتِ جلالی ہے، اس میں ’’قاف‘‘ کے عدد ایک سو ہیں، ’’غفار‘‘ صفتِ جمالی ہے، اس میں ’’غین‘‘ کے عدد ایک ہزار ہیں، اسی طرح رحمت کے مدارج کا غضب کے مدارج سے فرق سمجھو کہ ایک سو سے ہزار تک نو گنا فرق ہے۔ وللہ الحمد!
|