درین چمن کہ بہار و خزاں ہم آغوش ست
زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش ست
ذکر و فِکر دنیا سے نفرت:
مجھے قدیماً و حدیثاً اہل روزگار کے استخبار و اخبار سے کلی نفرت ہے اور احوال اہل دنیا کے شغل، اور تذکار سے مکمل بُعد ہے۔ اس کے باوجود جسے پاتا ہوں وہ مجھے اسی ذکر و فکر دنیا میں مشغول کرنا چاہتا ہے۔ اور اپنی روش و راہ کی طرف کھینچتا ہے، جس سے میں تہِ دل سے بھاگتا ہوں، نہ کوئی علم کا چرچا ہے نہ دین کی گفتگو ہے، نہ آخرت کی یاد ہے، نہ موت و برزخ کا ذکر۔ ہر صاحب و مصاحب کی ساری ہمت یہ ہے کہ مجھے نقصان پہنچائے۔ اور اپنا دنیاوی نفع حاصل کرے۔ میں ان لوگوں سے طبعی طور پر گریز کرتا ہوں۔ لیکن یہ میرے تعاقب سے باز نہیں آتے۔ ایک دو یا تین چار ہوں تب بھی صبر آئے، مشکل تو یہ ہے کہ ان بہائم و دواب کا ایک طویلہ ہو گیا ہے ؎
سلیم از دستِ بیدادِ کہ نالم
بکشتِ ما گزارِ لشکر افتاد ست
یہاں اختلاط زیادہ بر آشنائی کی رسم ہے اور میرا یہ حال ہے کہ مار گزیدہ از ریسماں می ترسد ؎
منتِ نا آمدن از آمدن افزوں بود
عَاذَانَا اللّٰہُ تَعَالٰی مِنْ عِنَایَاتِھِمْ وَصَانَنَا بِمَنِّہٖ عَنْ تَفَضُّلَاتِھِمْ
|