مالی پوزیشن کا غلط اندازہ:
یہاں کے حاسدوں اور دشمنوں نے میری مالی پوزیشن کو رجماً بالغیب مقدار موجود سے زیادہ خیال کیا۔ اور خال کو جبال کے برابر مشہور کر دیا۔ حالانکہ میں نے اس جگہ جتنا کمایا اس کا اکثر حصہ اسی جگہ عمارات اور دیگر ضروریات میں وقتاً فوقتاً صرف کر دیا۔ سوائے جاگیر کے اور کوئی آمدنی بھی نہیں ہے، اور نہ مجھ پر آقا کی طرف سے بارانِ عطا برستا ہے، اور نہ میں اپنے لیے مال جمع کرنے کا عادی ہوں ؎
دولتِ دنیا کہ تمنا کند
باکہ وفا کرد کہ باما کند
ہاں امن کا خواہاں ہوں اگر اللہ تعالیٰ نے لطف فرما کر مجھے اس جگہ امن بخشا تو میں اسی حالتِ راہنہ پر عزلت پذیر رہوں گا۔ اور اگر تقدیرِ الٰہی میں کچھ اور ہے تو میں بہرحال راضی بالقضاء ہوں ؎
رَضِیْنَا قِسْمَۃَ الْجَبَّارُ فِیْنَا
لَنَا عِلْمٌ وَ لِلْجُھَّالِ مَالٗ
فَاِنَّ الْمَالَ یَفْنٰی عَنْ قَرِیْبٍ
وَاِنَّ الْعِلَمَ یَبْقٰی لَا یَزَالٗ
اس شہر پر آشوب و ہنگامہِ جاں کوب میں میرے مال کی ایک کثیر مقدار حالتِ ضیاع میں ہے، جس کا اندازہ چار لاکھ کے قریب ہے۔ یک نیم بابت دہات اور دو نیم بابت مکانات، یہ تو اندیشہ مال کا ہے، رہا خوفِ جان سو وہ علیحدہ سوہانِ روح ہو رہا ہے ؎
دماغش نشگفدتا خونِ عاشق رانمی ریزد
انارِ خندہ اواز جلال آباد می آید
عِرض (عزت) تو مدت سے دستہ برِ اہلِ غرض ہو چکی ہے، فقط
|