Maktaba Wahhabi

136 - 384
کن لوگوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے؟ میں تہہ دل سے صحبتِ جہاں سے بیزار رہتا ہوں اور اہل علم سے میل جول کو دوست رکھتا ہوں۔ دل صرف یہ چاہتا ہے کہ صحبت میں ایسے لوگ ہوں جو مذاکرہ علم یا ذکرِ الٰہی کریں۔ دنیا کی باتیں نہ ہوں۔ لیکن یہ صحبت اس زمانہ میں عنقاء اور کیمیا کی طرح نایاب ہے۔ اکثر لوگ اگر اس لیے جمع ہوتے ہیں کہ امورِ دنیا کا تذکرہ کریں تو ایسی مجالس میں صرف ان امور کا ذکر ہونا چاہیے، جن سے عقلِ انتظام اور شعورِ خانہ داری بڑھے، یہ تو نہیں ہونا چاہیے کہ ماوشما کی خرافات کا ذکر، کسی کی غیبت کریں، کسی کی چغلی کھائیں، بات کریں تو جھوٹ بولیں، وعدہ کریں تو خلاف کریں۔ امانت رکھو تو خیانت کریں، عہد کریں تو توڑ ڈالیں، مخاصمت کریں تو گالی گلوچ بکیں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ایسے شخص کو منافق قرار دیا گیا ہے۔ خواہ نماز پڑھے، روزہ رکھے اور اسلام کا دعویٰ کرے۔ (رواہ مسلم) حدیث متفق علیہ میں حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے کہ جس شخص میں ان خصلتوں میں سے ایک بھی ہو گی، اس میں گویا نفاق کی ایک خصلت ہو گی۔ میں کہتا ہوں کہ اسے نفاقِ عملی کہتے ہیں۔ اور ایک جہاں اس بلا میں گرفتار ہے۔ حدیثِ مذکور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خالصِ نفاق فرمایا ہے۔ علماء نے کہا ہے کہ اس نفاقِ خالص سے مراد ان خصال کے حلال ہونے کا اعتقاد رکھنا ہے۔ لیکن اگر اس حدیث کی تاویل نہ کی جائے اور اسے ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس میں زیادہ زجر و توبیخ ہو گی۔ تاویل کی وجہ سے ہی ایسے افعال مخلوق کی نظر میں سبک (معمولی) ہو گئے ہیں، اور اِن علاماتِ نفاق سے احتراز کرنا مفقود ہو گیا ہے۔ بعض عارفین نے کہا ہے کہ آدمیوں کی چار قسمیں ہیں:
Flag Counter