اسی طرح لکھنؤ کے ایک صاحب نے ’’اتحاف‘‘ اور دہلی کے ایک شخص نے رسالہ ’’فتح المغیث‘‘ کے سنوات وفیات پر عدمِ صحت کے اعتراضات کئے تھے۔ حالانکہ یہ امورِ محل اعتراض سے بالکل بصید ہیں۔ کیونکہ وفیات وغیرہ کا اختلاف سلف سے برابر کتابوں میں منقول چلا آ رہا ہے۔ میں نے یہ سنوات وفیات ’’کشف الظنون‘‘ وغیرہ سے نقل کئے تھے اور ناقل پر صرف تصحیح نقل لازم ہے اور بس۔
فقہ سنت کے مسائل جو نصوصِ صریحہ و صحیحہ سے مستنبط کئے گئے ہوں، اُن کا علماء مذاہب کے اقوال سے مقابلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اور نہ وہ اقوال کسی اہل سنت فقیہ کے لیے حجت ہو سکتے ہیں۔
دلیل کو ماننے والا اور دلیل سے استدلال کرنے والا تو اسی وقت کسی اعتراض کو درخور اعتناء سمجھ سکتا ہے، جب اس کے قول کو کسی مقدم یا مساوی نص کے خلاف ثابت کیا جائے۔ ورنہ اگر تمام دنیا بھی دلیل کے خلاف کہتی ہے تو کہتی رہے، معترض علیہ پر اس کا جواب واجب نہیں ہو گا۔ جس شخص کا علم محض اللہ کے لیے یا آخرت کی بہتری کے لیے ہوتا ہے۔ وہ ہرگز اس طرح کا خرفشار نہیں کرتا۔ یہ گاؤ زوری، یہ گردن کی رگوں کا پھول جانا اور یہ بلند آوازی انہی لوگوں کا کام ہے، جو علم اور طلب آخرت کی لذت سے محروم ہیں۔ یاد رہے اس فعل کو حدیثِ شریف میں نفاق کا ایک شعبہ قرار دیا گیا ہے۔
اختلافِ اُمت:
میں صرف اہل سنت کو فرقہ ناجیہ سمجھتا ہوں۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، ظاہری، اہل حدیث اور اہل سلوک میں سے کسی کے متعلق گمان بد نہیں رکھتا، اگرچہ مجھے معلوم ہے کہ ان میں سے ہر گروہ کے کچھ مسائل خلافِ دلائل ہیں۔ اور کچھ موافق نصوص، ان
|