کے افراد کو دنیا سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگرچہ ان کے نفوس اس کا تقاضا ہی کرتے ہوں۔ اس لیے کہ آخرت میں اُن کے لیے اجرِ عظیم اور فوزِ کبیر ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
پھر ان میں سے کسی کو اگر اتفاقاً کچھ کشائش رزق نصیب ہو بھی جائے، تو وہ ان فساق اصحابِ ثروت جیسی نہیں ہوتی جو دین سے محروم ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے:
((اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ اٰلِ مَحَمَّدٍ كَفَافًا)) [1]
’’اے اللہ! آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بقدرِ کفایت رزق عنایت فرما۔‘‘
چنانچہ اس دعا کے مطابق میری عمر کا ایک تہائی حصہ اِسی حالتِ کفاف ہی میں گزرا۔ اس وقت ہمارا خاندان سات آٹھ افراد پر مشتمل تھا۔ جب میں نے نکاح کیا، اولاد ہوئی، ازواج و اخوات کے مصارف کا بوجھ بھی سر پر پڑا تو اللہ تعالیٰ نے کسی کا منت کش نہیں ہونے دیا۔ بلکہ اپنے فضل و کرم سے مجھ پر رزق کا دروازہ کھول دیا۔ اس نعمت کا شکر میرے امکان سے باہر ہے۔
عاجزی و انکساری:
اللہ تعالیٰ نے مجھے بچپن ہی سے متواضع اور خاکسار بنایا ہے۔ مخلوقِ خدا کے لیے میں طبعی طور پر شفقت، رحمت، رأفت اور رقت کے جذبات رکھتا ہوں۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے:
((لَا يَرْحَمُ اللّٰهُ مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ)) (متفق علیہ)
’’جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا خدا اس پر رحم نہیں فرمائے گا۔‘‘
|