Maktaba Wahhabi

133 - 384
مِن دِينِكُمْ فَخُذُوا به، وإذَا أَمَرْتُكُمْ بشيءٍ مِن رَأْيِي، فإنَّما أَنَا بَشَرٌ)) (رواہ مسلم) ’’میں بشر ہوں، جب دین سے متعلقہ کسی بات کا حکم دوں تو اسے لے لو اور جب میں اپنی رائے سے کوئی حکم دوں تو میں بشر ہوں۔‘‘ اس حدیث سے اشارۃ النص کے ذریعہ معلوم ہوا کہ بشریت کے تقاضے انبیاء کرام علیہم السلام کی آراء میں بھی کارفرما ہو سکتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اہل حل و عقد سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا۔ فرمایا: ﴿ وَشَاوِرْهُمْ فِى ٱلْأَمْرِ ’’معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کرو۔‘‘ یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حکم دین سے متعلق ہو، اس کی بجا آوری فرض ہے، اور اسے اپنی رائے کا دخل دئیے بغیر جوں کا توں تسلیم کرنا چاہیے۔ سارے سلف صالحین، محدثین کرام عام متبعینِ سنت اور جماعتِ ظاہریہ کا یہی مسلک رہا ہے۔ اس کی مزید وضاحت کے لیے یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل فرمایا، اس سب کے بیان کر دینے کا حکم بھی دیا۔ پس کسی ایسی بات کو ترک نہیں فرمایا جس میں ہماری سعادت ہو۔ اور جس سے سکوت فرمایا وہ ہم پر رحمت اور وسعت کے پیشِ نظر ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں اشارہ بھی فرمایا اور کچھ باتیں فی الواقع ایسی ہیں جن سے ہم پر رحمت کرتے ہوئے سکوت فرمایا ہے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے متعلق سوال نہ کیا کرو۔ واللہ اعلم صحبتِ صالح: مجھے طبعی طور پر اہل تقویٰ سے محبت ہے اور صحبتِ صادقین سے رغبت ہے۔ اہل فشق سے قلبی طور پر کلی نفرت ہے اور جھوٹوں سے وحشتِ تام ہے
Flag Counter