نسبت کہا ہے۔ اس کو صحت و نفس الامر سے کچھ بھی تعلق نہیں ہے ہم اُمید کرتے ہیں کہ موہانی صاحب اس اپنی رائے کو واپس کر لیں گے۔ یہ جرأت و حق پرستی حاصل نہ ہو تو اُس پر نظرثانی تو ضرور کریں گے۔ (فئوس الكمله عليٰ رؤس الجهله ص 97 تا 103)
مُجدد
کسی کے ذاتی و شخصی وصف منقصت یا کمال سے بحث کرنا چنداں ضروری امر نہیں ہے۔ مگر جب وہ ذاتی و شخصی وصف قومی وصف ہو جائے اور اس کا اثر ایک قوم پر پہنچے تو وہ وصف ذاتی و شخصی نہیں رہتا۔ اور اس سے بحث قومی ضروریات سے ہو جاتی ہے۔
مثلاً ایک شخص کسی کی نسبت شہادت دینا چاہتا ہے اور اس کے کلام کا اثر اس کی جان یا مال پر پہنچنے والا ہے تو اس کے ذاتی چال و چلن سے بحث کرنا ضروری و قومی امر ہے۔ ایسا ہی اگر کوئی شخص کسی قوم کا رہنما و مقتدا ہے اور اس سے عام لوگوں کی ہدایت یا ضلالت متصور ہے تو اس کے ذاتی حالات سے بحث کرنا ان لوگوں کا اعلیٰ فرض ہے جو قومی امور میں بحث کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
اِس اصول [1] پر محدثین نے سلف سے خلف تک حدیث کے راویوں
|